اقوام متحدہ ۔ 25 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) دہشت گردی کے ایک ماہر نے کہا کہ دولت اسلامیہ انتہاء پسند گروپس کیلئے جو افراد غیرملکی جنگجو بن گئے ہیں، ان میں سے تین چوتھائی کو ان کے دوستوں نے اور اس 20 فیصد کو ان کے ارکان خاندان نے دولت اسلامیہ کا جنگجو بننے کی ترغیب دی تھی۔ ماسکو یونیورسٹی میں ناقابل حل تنازعہ کی یکسوئی کیلئے قائم کردہ مرکز کے معاون بانی اسکاٹ آٹران نے کہا کہ تحقیق سے پتہ چلا ہیکہ بنیاد پرستی کی تبلیغ مسجدوں سے بہت کم کی جاتی ہے اور نامعلوم بھرتی کرنے والے اور اجنبی انتہائی کم تعداد میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دولت اسلامیہ میں شامل ہونے والے چند افراد عیسائی خاندانوں کے بھی ہیں اور وہ تمام جنگجوؤں سے جن سے ہمارا ربط پیدا ہوچکا ہے، زیادہ خوفناک ثابت ہوئے۔ آٹران نے کل ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’غیرملکی جنگجو‘‘ کے زیرعنوان ایک سمینار کا انعقاد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مخالف دہشت گردی کمیٹی کے زیراہتمام ہوا تھا جس میں اپیل کی گئی کہ دولت اسلامیہ کی جنگ کو مہم جوئی اور شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ قرار نہ دیا جائے کیونکہ اس سے نوجوانوں کو دولت اسلامیہ میں شمولیت کی ترغیب ملتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جہاد انہیں ہیروز بننے کا ایک موقع فراہم کررہا ہے۔