دواخانہ عثمانیہ کے انہدام کی اطلاع پر اظہار تشویش

فلک نما ، چومحلہ پیالیس کی عظمت رفتہ کی بحالی تو دواخانہ کی کیوں نہیں ، ڈاکٹر سید معین الدین دبئی کا ردعمل
حیدرآباد 24 جولائی (سیاست نیوز) حکومت دواخانہ عثمانیہ کو منہدم کرنے کے بجائے اُس کی ازسرنو عظمت رفتہ کی بحالی پر توجہ مرکوز کرے۔ جب فلک نما اور چومحلہ پیالس جیسی قدیم تاریخی عمارتوں کی خانگی طور پر عظمت رفتہ بحال کی جاسکتی ہے تو حکومت کی جانب سے دواخانہ عثمانیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہئے۔ ڈاکٹر سید معین الدین حال مقیم دوبئی نے دواخانہ عثمانیہ کو منہدم کرنے کی اطلاعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جامعہ عثمانیہ میڈیکل کالج اور عثمانیہ ہاسپٹل حیدرآباد کی علامتی درسگاہ و طبی مرکز میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سید معین احمد نے بتایا کہ عثمانیہ میڈیکل کالج ایک ایسی عظیم الشان دانش گاہ ہے جہاں کے فارغین نے شعبہ طب میں عالمی سطح پر شہرت حاصل کی ہے۔ حکومت تلنگانہ کو چاہئے کہ وہ دواخانہ عثمانیہ کی عمارت کو منہدم کرنے کے بجائے عمارت کی عظمت رفتہ کی بحالی پر توجہ دے۔ علاوہ ازیں شہر حیدرآباد کے گرتے طبی تعلیمی معیار پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ حیدرآباد کا یہ طرۂ امتیاز رہا کہ اس شہر نے دنیا بھر کو ماہر اطباء دیئے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ حیدرآباد میں موجود سرکاری و خانگی میڈیکل کالجس کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے انتظامی اُمور کی نگرانی ناگزیر ہے۔ طبی تعلیم کے گرتے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ عثمانی طرز تعلیم کے احیاء کو یقینی بنایا جائے تاکہ ایک مرتبہ پھر حیدرآباد سے طبی ماہرین کی ایسی نسل تیار ہو جو دنیا بھر میں اس شہر کا نام روشن کرے۔ انھوں نے بتایا کہ دواخانہ عثمانیہ کی عارضی منتقلی قابل قبول ہے تاکہ عمارت کی آہک پاشی و داغ دوزی ہوسکے۔ اگر حکومت اس دواخانہ کو منہدم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کی شدت سے مخالفت کی جائے گی۔ چونکہ دواخانہ عثمانیہ نہ صرف تلنگانہ و آندھرا بلکہ عرصہ دراز تک کرناٹک اور مہاراشٹرا کے عوام کی خدمت انجام دیتا رہا ہے جہاں غریب مریض مفت علاج کی سہولت سے استفادہ کرتے ہیں۔