دواخانوں میں اموات

خودکشی کرنی جسے منظور تھی
بس سمندر تک وہی دریا گیا
دواخانوں میں اموات
عوامی صحت کے معاملہ میں جب حکومت سے لیکر داوخانوں کے متعلقہ ذمہ داران امانت میں خیانت کرتے ہیں تو مریضوں اور شہریوں کو موت کے منہ میں ڈھکیلنے والی غلطیاں سرز دہوتی ہیں۔ تلنگانہ میں عوامی صحت پر توجہ دینے کے سرکاری دعوے تو بہت ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ تلنگانہ کے دوردراز علاقوں کے سرکاری دواخانوں کی بات درکنار شہر حیدرآباد کے سرکاری دواخانوں کو مریضوں کے لئے موت کا کنواں بنا کر چھوڑ دیاگیا ۔ نیلوفر دواخانہ اس شہر کا ہی نہیں بلکہ ریاست اور ملک کا قدیم ایشیائی سطح پر مقبول دواخانہ ہے لیکن یہاں کی دیکھ بھال اور مریضوں کے علاج کے معاملہ میں آئے دن کئی شکایات وصول ہوئی ہیں ۔ شہر میں بڑے سرکاری دواخانوں عثمانیہ ہاسپٹل ‘ گاندھی ہاسپٹل ‘ پیٹلہ برج زچگی خانہ یا فیور ہاسپٹل کے حالات سے یہاں علاج کرانے والے مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والے رشتہ داروں کوبخوبی واقفیت ہیں۔ نیلوفر ہاسپٹل کا تازہ واقعہ افسوسناک ہے کہ یہاں لاپرواہی نے پانچ خواتین کی جان لے لی ۔ ان متوفی خواتین کے ارکان خاندان نے الزام عائد کیا کہ زچگی کے معاملہ میں زچہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویہ اور مجرمانہ غلطیوں کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں ۔ 28 ؍ جنوری سے 4 ؍ فبروری کے دوران زچگی اور بچہ تولد کرنے کے دوران لاپراہی یا ناقص انتظامات کی وجہ سے پانچ خواتین اپنی کوکھ سے بچہ جنم دینے کے دوران فوت ہوگئیں۔ دواخانہ میں مریضوں کو دینے کے لئے خون کا ذخیرہ نہیں ہوتا ‘ خون کو باہر سے خریدا جاتا ہے ۔ آپریشن کے دوران اتنی مجرمانہ لاپرواہی برتی جاتی ہے کہ زچہ کے پیٹ میں کپاس کا بنڈل ہی بھول کر ٹانکے ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ نیلوفر دواخانہ کو ترقی دینے کے لئے حکومت کے اقدامات کے باوجود بیوروکریسی کی کوتاہیوں کی وجہ سے ہزاروں مریضوں کو پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ 500 بستروں والا نیا انٹنسیو کیئر بلاک تعمیر کیا گیا مگر افسر شاہی کی وجہ سے دواخانہ کو ہنوز استعمال نہیں کیا جاسکا کیونکہ اس نئے بلاک کے لئے ممکنہ آپریشن اسٹاف ‘ سیکوریٹی اور میڈیکل عملہ کا تقرر نہیںکیا گیا ہے ۔ اگر یہ نیا بلاک کام کرنا شروع کردیتا تو ان پانچ خواتین کی جان بچائی جاسکتی تھی ۔ موجودہ دواخانوں میں زچگیوں کے تمام امور سے نمٹنے کے لئے وسیع تر سہولتیں نہیں ہیں۔ جگہ کی کمی ‘ غیر صحت مند ماحول پرانے فرسودہ آلات اور عملہ کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ دواخانوں کے نئے بلاک کے لئے 92 ڈاکٹرس اور 351 نرسوں کی ضرورت ظاہر کی جاچکی ہے اور اس کے صاف ستھرائی کے لئے عملہ کا ہونا ضروری ہے ۔ سیکوریٹی اسٹاف کی تعیناتی سے دواخانہ میں تحفظ کا احساس پیدا ہوگا ۔اس 2,20,000 مربع فیٹ والے بلاک کے لئے بہترین صفائی کا انتظام ہونا بھی لازمی ہے ۔ لیکن سرکاری سطح پر کلی طور پر متعلقہ وزارت اور محکمہ افسر شاہی نے تمام معاملوں کو ٹھپ کر دیا ہے ۔ دواخانہ کے نئے بلاک کی عمارت تو تیار ہے اس میں مریض بھی رکھے جاسکتے ہیں لیکن انہیں دیکھنے اور علاج کرنے والا کوئی نہیں ہے تو پھر متعلقہ حکام سے اس معاملہ میں ہونے والی کوتاہیوں کا جواب طلب کیا جانا چاہئے ۔ سرکاری دواخانوں میں جونیئر ڈاکٹرس ‘ نرسوں اور میڈیکل عملہ کے دیگر ارکان کی کئی شکایات بھی سامنے آ رہی ہیں مگر حکومت ان تمام کے مسائل کی یکسوئی میں دلچسپی نہیں دکھاتی ہے تو مسائل میں مزید اضافہ ہوتا ہے ۔ گاندھی ہاسپٹل میں تقریباً 200 کنٹراکٹ نرسیس گذشتہ ایک ہفتہ سے اپنے مطالبات کے لئے زور دینے احتجاج کر رہی ہیں ۔ ان نرسوں کے ساتھ اظہار یگانگت کرتے ہوئے ایم این جے کینسر ہاسپٹل ‘ نیلوفر ہاسٹل ‘ ای ایس آئی ہاسپٹل اور یگر دواخانوں سے تعلق رکھنے والی سینکڑوں نرسوں نے احتجاج میں حصہ لیا ۔ ہر دواخانہ کے اپنے مسائل اور شکایات ہیں جن کی فوری یکسوئی کے بعد ہی حالات اچھے ہوں گے ۔ تندرست ہو کر گھر جانے کے بجائے مزید احساس کمزوری اور ذہنی اذیت کا شکار ہو کر نئی بیماریاں حاصل کر کے جاتا ہے ۔ لہذا پیشہ طب کی اہمیت کو ملحوظ رکھکر ڈاکٹرس ‘ نرسیس اور طبی عملہ کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خیانت نہیں کرنی چاہئے ۔ حکومت کا فرض ہے کہ کہ وہ اپنے منصوبہ جاتی بجٹ کو فوری جاری کرتے ہوئے تمام زیر التواء مطالبات کی یکسوئی کو یقینی بنائے ۔