دنیا کی فکر ہے مگر آخرت کی نہیں… آخر کیوں؟

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
دورِ حاضر کی خواتین جب گھریلو پریشانیوں میں مبتلا ہوتی ہیں تو علماء کے پاس دعاء کروانے کے لئے پہنچتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’’حضرت! ایسی دعاء کردیں کہ میرا خاوند میری بات مان لے۔ حضرت! ایسی دعاء کردیں کہ خاوند میری بات سننے لگے، کیونکہ میں جو کچھ بھی کہتی ہوں وہ سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ حضرت! دعاء کردیں کہ ہمارا خاوند وقت پر گھر آنے لگے، کیونکہ اکثر وہ دیر سے آیا کرتا ہے۔ حضرت! دعاء کردیں کہ ہمارا خاوند اپنے گھر کی طرف توجہ رکھے، کیونکہ اسے گھر کی کوئی فکر نہیں رہتی۔ حضرت! دعاء کردیں کہ ہمارا خاوند اپنی بیوی کے حقوق کو پہچانے، کیونکہ اسے بیوی کے حقوق کا کوئی خیال نہیں رہتا۔ حضرت! میں بہت دُکھی ہوں، میں نے در در کے دھکے کھائے ہیں، مگر مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو میرا دکھ بانٹنے والا ہو‘‘۔

اللہ کی یہ بندی دوسروں سے تو دعاء کروا رہی ہے، مگر جس ذات پاک کو اس کے خاوند کے دل میں اس کی محبت ڈالنا ہے، کیا کبھی اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہے؟۔ کبھی اپنے گھر میں برکت کے لئے دعاء کرواتی ہے اور کہتی ہے کہ ’’ہمارے گھر میں تنگی ہے، جس کی وجہ سے ہاتھ بہت تنگ رہتا ہے‘‘۔ یعنی رزق میں فراخی تو چاہتی ہے، مگر خاوند جیسے ہی کام پر چلا جاتا ہے، گھر میں بیٹھ کر دوسروں کی غیبت شروع کردیتی ہے، لہذا ایسی صورت میں تنگدستی نہ ہوگی تو کیا رزق میں وسعت ہوگی؟۔

ایک دَور ایسا بھی تھا کہ جب خاوند تجارت کی غرض سے گھر سے نکلا کرتے تھے تو ان کی بیویاں مصلیٰ بچھاکر نماز پڑھا کرتیں اور دعائیں کیا کرتی تھیں۔ اپنا دامن پھیلاکر اللہ تعالی سے دعاء مانگتیں کہ ’’اے اللہ! میرا خاوند رزق حلال حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑا ہے، لہذا اس کے رزق میں برکت عطا فرما، اس کی صحت میں برکت عطا فرما اور اس کے کام میں برکت عطا فرما‘‘۔ اِدھر عورت روروکر اپنے رب سے دعاء مانگ رہی ہوتی اور اُدھر اللہ تعالی اس کے شوہر کے کام اور کاروبار میں برکت عطا فرماتا۔ کیا اب بھی خواتین گھر میں بیٹھ کر اپنے خاوندوں کے کاروبار میں برکت کے لئے دعاء کرتی ہیں؟۔ اس جانب خواتین کی توجہ ہرگز نہیں ہوتی، بلکہ ان کی توجہ صرف گلہ شکوہ پر ہوتی ہے اور پھر جب کسی پریشانی میں مبتلا ہوتی ہیں تو خود دعاء کرنے کی بجائے دوسروں سے دعاء کرواتی ہیں۔ ’’صاحب! دعاء کردیں کہ اللہ تعالی ہمارے گھر میں برکت عطا فرمائے‘‘۔

اللہ رب العزت نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان تمام باتوں کی وضاحت فرمادی ہے۔ اگر ہم ان کی تعلیمات کو سمجھ کر ان کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں ہمارے ساتھ ہوں گی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’اگر یہ بستی والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔ یعنی اللہ تعالی اپنی سچی کتاب میں یہ وعدہ فرما رہا ہے کہ اگر یہ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ ’’ہم بے برکتی کے شکار ہیں‘‘۔ ایسا اس لئے ہے کہ ہماری زندگی میں تقویٰ نہیں ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں تقویٰ و طہارت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

اب بھی وقت ہے، لہذا اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے کچھ کوشش کرلیں، تاکہ اللہ رب العزت ہم سے راضی ہو جائے، ورنہ یہ مہلت اگر ہم سے چھن گئی اور ہماری موت کا وقت آگیا تو پھر مشکلات بڑھتی ہی جائیں گی۔

کسی نے بڑی پیاری بات کہی ہے کہ ’’جتنا تمھیں دُنیا میں رہنا ہے اتنا دنیا کے لئے کوشش کرو اور جتنا تمھیں آخرت میں رہنا ہے، اس کے مطابق آخرت کے لئے کوشش کرو‘‘۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جس گھر میں ہمیں صرف سو پچاس برس مشکل سے رہنا ہے، اسے تو ہم چمکاتے رہتے ہیں، یعنی گھر کی صفائی پر دو دو گھنٹے صرف کردیئے جاتے ہیں، اس کے سجانے سنوارنے کی فکر رہتی ہے اور جس گھر میں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے اس گھر کو سنوارنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ خواتین و حضرات اس بات پر غور کریں کہ ’’کیا ہم روزانہ بیٹھ کر ایک گھنٹہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں؟ یا چند پارے قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں؟‘‘۔

اگر ہم دین کی تعلیم حاصل کرکے اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں تو یہ ہمارے سب غموں کا علاج ہے۔ یعنی جب تک ہم اللہ تعالی کے درپر نہیں آئیں گے، ہماری پریشانیاں ہم سے دُور ہونے والی نہیں ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’جس نے اپنی تمام پریشانیوں کو ایک پریشانی بنا لیا، یعنی آخرت کی پریشانی، تو اللہ تعالی دنیا کی پریشانیوں کو اس سے دُور فرمادے گا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ والوں کے دلوں میں نہ کوئی غم ہوتا ہے اور نہ کوئی خوف۔ اللہ تعالی کی جو نیک بندیاں نیکی، تقویٰ اور پرہیزگاری کی زندگی گزارتی ہیں، اللہ تعالی انھیں بھی اسی طرح کی پُرسکون زندگی عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو نیک زندگی اور قابل رشک زندگی گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہم سب کی تمام پریشانیوں کو دُور فرمادے۔ ہمارے دِلوں میں نیکی کا شوق پیدا فرمادے، تاکہ ہم نیک زندگی گزارکراپنے رب کو راضی کرلیں۔ (آمین)

سوچنے کی بات یہ ہے کہ خواتین اس دنیا میں ’’گھر والی‘‘ کہلاتی ہیں، اس لئے کہ ان کا اکثر وقت گھر میں گزرتا ہے، گھر کی زیبائش اور خوبصورتی کا انھیں خیال رہتا ہے، یعنی گھر ان ہی کی طرف منسوب ہو جاتا ہے۔ اسی لئے جب کوئی مرد کسی دوسرے مرد سے پوچھتا ہے تو کہتا ہے کہ ’’تمہاری گھر والی کا کیا حال ہے؟‘‘۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورت کی جب شادی ہوتی ہے تو اس کی یہ دِلی تمنا ہوتی ہے کہ ’’میرا اپنا گھر ہو، جہاں میں اپنا سر چھپا سکوں‘‘۔ غور کریں کہ جب اِس فانی دنیا میں گھر کی اتنی سخت ضرورت ہے تو پھر آخرت میں گھر کی کتنی شدید ضرورت ہوگی؟۔ (اقتباس)