دنیاوی زندگی جو مستقل زندگی نہیں یہاں سکون و قرار میسر نہیں، آمد ورفت کے سلسلہ ہی سے دنیا کا وجود ہے۔ کوئی بشر یہاں مستقل طور سے نہ رہ سکا ہے اور نہ رہ پائے گا۔ پھر ایسی دنیا کو محض کھیل کود اور تفریح طبع کا سامان نہ کہاجائے تو اور کیا کہا جائے۔ دنیا کی حقیقی تعریف یہی ہوسکتی ہے۔
آخرت کا گھر منزل اقامت اور قرارگاہِ دائمی ہے اس لئے وہی اصل گھر ہے۔ وہی منزل مراد ہے وہ لوگ محفل و خرد سے ناآشنا اور علم و ادب سے ناواقف ہی سمجھے جائیں گے۔ جو دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھیں اور آخرت کو فراموش کرجائیں۔ یہ فرمان ربانی بھی دنیا ہی کے متعلق ہے۔
وما الحیٰوۃ الدنیا الامتاع الغرور … ( پ۵ع۱۰)
دنیا کی زندگی …… پونجی کے سوا نہیں ہے۔اس آیت مقدسہ میں دنیا کے ساز و سامان، مال و متاع، حیات دنیاوی اور انعام دنیاوی کو دھوکے کا سامان کہا گیا ہے۔
آپ فرمادیجئے متاع دنیا قلیل ہے اور آخرت متقیوں کے لئے بہتر ہے۔( پ ۵ع۸)
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول ہاشمی علیہ الصلاۃ و السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ دنیا کی محبت ہر بُرائی کی جڑ ہے‘‘۔( مشکوٰۃ )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا کہ’’ ( کان کھول کر) سن لو، دنیا ملعون ہے اور جو چیزیں اس میں ہیں وہ بھی ملعون ہیں مگر ذکر الٰہی اور وہ وہ چیزیں جنھیں رب تعالیٰ محبوب رکھتا ہے اور عالم یا متعلم بھی۔‘‘ ( ترمذی )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ’’ دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے‘‘۔ ( مسلم) شریف
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جو شخص اپنی دنیا سے محبت کرتا ہے ( ایسی محبت جو اللہ و رسول ؐ کی محبت پر غالب ہو ) تو وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو اپنی آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے تو ( اے مسلمانو ) فنا ہونے والی چیز ( یعنی دنیا) کو تج کر باقی رہنے والی چیز ( یعنی دنیا ) کو اختیار کرلو ۔‘‘ ( احمد۔ مشکوٰۃ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا ’’ اگر ( دنیا دار) آدمی کے پاس مال سے بھرے ہوئے دو جنگل ہوں جب بھی وہ تیسرے جنگل کی آرزو کرے گا، اور ایسے ( حریص ) آدمی کا پیٹ قبر کی مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھرسکتی۔‘‘ ( بخاری۔ مسلم )
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا ’’ دو بھوکے بھیڑیئے جنھیں بکریوں میں چھوڑ دیا جائے وہ اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال اور مرتبہ کی لالچ انسان کے دین کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘‘ ( ترمذی )
جان لو بے شک دنیا کی زندگی لہو ولعب ہے، آپس میں زینت و آرائش کا سامان ہے۔ مالوں اور اولادوں میں کثرت کا ذریعہ ہے۔… (پ۲۷ع۱۹)
مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے اور آرزو کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ ( پ۱۵ع۱۸)
بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد فتنہ ہیں اور اللہ کے نزدیک (تمہارے اعمال صالحہ کیلئے ) اجرِ عظیم ہے۔ (پ ۲۸ع۱۶)
تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کریں اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ خسارے میں ہیں۔( پ ۲ع۹)
لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اے رب ہم کو دنیا ہی میں دے دے ان کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔(پ ۲ع۹)
یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کی کمائی ( اعمال صالحہ ) سے حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔(پ۲ ع ۹)
بلکہ تم لوگ دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہو حالانکہ آخرت بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے۔( پ ۳۰)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
دوزخ پر شہوتوں کے ساتھ پردہ ڈال دیا گیا ہے اور جنت پر ناگوارامروں کے ساتھ حجاب کردیا ہے۔
لیکن معلم کی روایت میں محبت کے بدلے میں جنت ( جنت کا ناگوار امروں کے ساتھ احاطہ کردیا گیا ہے)۔(بخاری و مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تین چیزیں میت کاپیچھا کرتی ہیں ان میں دو لوٹ جاتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہے۔اس کا پیچھا اس کا اہل، اس کا مال اور اس کا عمل کرتا ہے۔ پھر اس کا اہل اور مال تو لوٹ کر آجاتا ہے لیکن اس کا عمل باقی رہ جاتی ہے۔‘‘ ( بخاری و مسلم )
میت کا مال تو گھر ہی میں رہ جاتا ہے ، پیچھے جانے والے مالوں سے مراد وہ رقم اور وہ غلہ ہوسکتا ہے جو قبرستان کے پاس میت کے دفن کے بعد تقسیم کرتے ہیں۔