ہر طرف آگ ہے ہر طرف ہے دھواں
ہو نہ ہو خوف و دہشت کی ہیں بستیاں
دنیائے امن کو درپیش خطرات
امریکی صدارتی انتخاب اس مرتبہ شدید زیادہ اہمیت کا حامل بنتا جا رہا ہے کہ ایک امیدوار کی حمایت کرنے والی یہودی لابی نے ساری دنیا میں دہشت گرد واقعات کو ہوا دے کر اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے صدارتی امیدوار کے نظریات کو تقویت دینے کی کوشش جاری رکھی ہے ۔ ترکی ‘ بنگلہ دیش اور عراق میں سلسلہ وار دہشت گرد حملوں کے واقعات میں ملوث تنظیم نے یہودی لابی کے منصوبوں کو کامیاب بنانے میں معاونت کی ہے تو پھر اس طرح کے دہشت گرد حملے ساری انسانیت اور دنیائے امن کے لئے خطرناک ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کسی ایک طاقت کو تیار کرنا اور اسے پروان چڑھنے میں درپردہ مدد دینا اور اس طاقت کے ذریعہ ساری دنیا کو خوف زدہ کرنے کی سازشیں نئی نہیں ہیں ۔ عالم اسلام کی ازلی دشمن طاقتیں اپنی گھناونی سازشوں کو بروئے کار لانے میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ امریکہ میں نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب تک سادی دنیا میں دہشت گردی کے واقعات کی فہرست کتنی طویل ہوگی یہ سوچ کر عالمی امن کے ٹھکیداروں نے اپنے دوہرے پن کو ترک نہیں کیا تو پھر القاعدہ اور اس کے بعد کی تنظیموں کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی خرابیوں کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ عراق میں موجودہ صورتحال کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟ ۔ یہاں پر داعش یا دولت اسلامیہ کے پروان چڑھنے کا الزام کس پر عائد کیا جا ئے ؟ صدر امریکہ کے سابق صدور ہوں یا موجودہ صدر یا آنے والے صدر دنیائے امن کے حق میں اپنی پالیسیوں کو دوہرا پن دیا ہے تو یہ انسانی زندگیوں کے لئے مضرت رسانی ہی ثابت ہوئے اور ہوں گے ۔ دولت اسلامیہ کو شکست دینے کیلئے امریکی منصوبہ ’’پلان بی‘‘ بھی ناکام رہا ۔ عراق میں امریکہ کا دیر تک کا منصوبہ ناکام ہی رہا ہے ۔ امریکی ری پبلکن قائدین نے دہشت گردی کے خطرے کو شکست دینے کے لئے صحیح اور موثر حکمت عملی پیش کرنے کی وکالت کی تھی لیکن دولت اسلامیہ سے لڑنے کی حکمت عملی مجموعی طور پر کامیاب نہیں رہی ۔ اس کے علاوہ دولت اسلامیہ کے خلاف نام نہاد و عالمی اتحاد حقیقت سے زیادہ مبالغہ آرائی پر مشتمل دکھائی دیا اس لئے یہ تنظیم متواتر مختلف ملکوں میں دھماکے کر رہی ہے ۔ اس کی سرپرستی کرنے والی خفیہ طاقتیں وہی ہوسکتی ہیں جو عالم اسلام کو کمزور اور تباہ کرنے کے لئے درپے ہیں ۔ پھر ملک کے اندر انتہا پسندی کے خلاف جنگ جاری ہے مگر انتہا پسندی کو شکست دینے میں کامیابی نہیں مل رہی ہے ۔ استنبول ایرپورٹ پر حملہ کے بعدڈھاکہ اوربغداد میں دہشت گرد حملے سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسانی آبادیاں دن بہ دن غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہیں ‘ ایک طرف عراق ‘ لیبیا ‘افغانستان ‘ یمن اور مصر میں آئی ایس آئی ایس کا زور ٹوٹ رہا ہے تو دوسری طرف ایسے دہشت گرد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو اس تنظیم کی مایوسی کی علامت ہے ۔ بغداد میں ہلاکت خیز حملے سے ایک ہفتہ قبل ہی داعش کو فلوجہ میں عراق فوج کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی تھی اس ناکامی کا انتقام درپردہ جنگ سے کیا گیا جس میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ آئی ایس آئی ایس کے نام پر اگر کوئی دوسری طاقت گھناونے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے تو پھر دہشت گردی کی ایک نئی خطرناک لہر ہے جس کو روکنا ساری دنیا کی بڑی طاقتوں کی ذمہ داری ہے ۔ یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی کے فوری بعد یوروپی معیشت کو ایک نئی عالمی سمت دینے میں بھی داعش کے نام پر کچھ دہشت گردی کا خوف پھیلایا جاسکتا ہے ۔ لہذا ساری دنیا کا ہر ملک اور اس کا سربراہ یہ سمجھ کر خاموش رہے کہ بم حملے اور دہشت گرد کارروائیاں صرف ایک یا چند علاقوں تک ہی محدود ہیں تو یہ بہت بڑی غلطی ہے بلکہ ہر ملک میں ایسے کئی سلیپر سیلس ہوں گے جو ایک دوسرے سے ہٹ کر آزادانہ طور پر کاررائیاں انجام دے رہے ہیں ۔ جیسا کہ بنگلہ دیش میں ہوئے حملے اور حملہ آوروں کے تعلق سے ابتداء میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ کارروائی داعش کی ہے بعدازاں بتایا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق مقامی شدت پسند تنظیم جمعیت المجاہدین بنگلہ دیش سے تھا ۔ حملہ آوروں کا تعلق دولت اسلامیہ سے نہیں ہے ۔ اس طرح کے مقامی سطح پر ہی سلیپر سیلس کی موجودگی نے حکمرانوں کے لئے چیلنج کھڑا کر دیا ہے ۔ ہندوستان میں ہائی الرٹ اور حکومت کی احتیاطی تدابیر کے باعث ’’ اب تک حالات پرامن ہیں لیکن بنگلہ دیش ‘‘ واقعہ کے بعد سرحدوں پر چوکسی بڑھاتے ہوئے ہندوستانی فوج نے اپنی ذمہ داری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کیا ہے۔