دلت طالب علم کی خودکشی

ملک کے تعلیمی اداروں خاص کر یونیورسٹیوں میں تعلیمی امن کو برباد کرنے کی حرکتیں ہوتی رہیں تو ہندوستان میں طلباء برادری کا مستقبل بہتر بنانے کی پالیسی ناکام ہوجائے گی۔ حق تعلیم قانون کے ساتھ ہر بچہ کو تعلیم یافتہ بنانے حکومتوں کی کوششوں کو جاری رکھنے کے درپردہ بعض گروپس یا سیاسی ٹولے قومی سطح سے لے کر ریاستی سطح تک دلت، اقلیت اور دیگر کمزور طبقات کے طلبا کے ساتھ تعصبانہ رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد کے ایک دلت طالب علم کی خودکشی سیاسی رنگ اختیار کرتے جارہی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس خودکشی کا پس منظر مرکزی حکومت اور اس کے وزراء کے اِردگرد گھوم رہا ہے۔ پی ایچ ڈی اسکالر روہت ویملا کی اسکالرشپ روک دینے کے فیصلہ نے اس طالب علم کو انتہائی اقدام کرنے پر مجبور کردیا تو یہ ایک دلت ہی نہیں بلکہ ضرورت مند قابل طالب علموں کی حق تلفی

اور ان کے تعلیمی مستقبل کے ساتھ کھلواڑ و زیارتی کرنے کے مترادف حرکت کہلاتی ہے۔ دلت طالب علم کی خودکشی کے بعد احتجاج کرنے والی طلباء تنظیموں اور سیاسی قائدین کا الزام ہے کہ اس خودکشی کے پس پردہ یونیورسٹی وائس چانسلر، مرکزی وزراء بنڈارو دتاتریہ اور مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی نے اہم رول ادا کیا ہے۔ اس واقعہ کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ دلت طالب علم کی موت پر سیاست کرنے کا یہ موقع ہرگز نہیں تھا مگر بعض سیاست دانوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ نائب صدر کانگریس راہول گاندھی نے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی پہونچ کر احتجاجی طلباء سے ملاقات کی اور متوفی دلت طالب علم کے پسماندگان کو پرسہ دیا۔ مرکزی سطح پر جب سے نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت کام کررہی ہے۔ ملک میں اقلیتوں دلتوں اور پسماندہ طبقات کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ ہورہا ہے۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر کی اسکالرشپ کو دانستہ طور پر روک دینے کا الزام ہے۔ اس الزام کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ ملک میں دلتوں کے ساتھ ہونے والے واقعات اور اموات کا ڈاٹا بتارہا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران دلتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق ایک سال میں دلتوں کے خلاف 12,000 جرائم کے واقعات ہوتے ہیں۔

دلت طالب علم کی خودکشی سے ہندوستانی معاشرہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑنا فطری امر ہے۔ یونیورسٹیوں کو اگر کوئی گروہ واریت اور تعصب پسندی اور نفرت کے لئے مرکز میں تبدیلی کرنے کی چال چل رہا ہے تو یہ ایک خطرناک کھیل ہے۔ اس کھیل کو فوری روکنا ضروری ہے۔ دلتوں، اقلیتوں کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک کا فوری نوٹ لینے کے بجائے مرکز کی حکمراں طاقتیں بی جے پی، آر ایس ایس کسی بھی قسم کی سنجیدہ تنقیدوں اور رائے کو قبول کرنے تیار دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ گروپ تنقیدی رائے کو دباتے ہوئے انسانی جانوں کے نقصانات کی حد تک بالادستی چاہتے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ وہ حکمراں گروپ سے وابستہ ٹولے ’’جمہوریت دشمن‘‘ سیکولر دشمن اور مساوات کے دشمن ہیں۔ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں اس طرح کی خودکشی کے 8 واقعات ہوئے ہیں۔ یہ تمام اموات محض ان طالب علموں کے خلاف امتیازی رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ دلتوں اور مسلم طلباء کو ترقی سے محروم کرنے خاص کر سائنس کے شعبہ میں اقلیتی اور دلت طلباء کو پیچھے ڈھکیلنے کی گھناؤنی سازشیں ہورہی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں فرقہ پرستی کے زہر کو پھیلنے سے روکنا وقت کا تقاضہ ہے۔ تمام سیکولر ذہن افراد، جمہوریت پسندوں اور مساوات کے علمبرداروں کو متحد ہوکر اس ملک کی دیرینہ روایت اور تاریخ کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہر دور کے حکمرانوں کی اپنی پالیسیاں رہی ہیں۔ اس مرتبہ کی حکومت کی پالیسی واضح طور پر مخالف دلت و اقلیت دکھائی دے رہی ہے تو اس سے ملک کا فرقہ وارانہ ماحول متاثر ہوگا اور یونیورسٹیوں میں اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کرنے والے منفی سوچ پر عمل پیرا ہیں جو قومی مزاج اور تاریخی تشخص کے مغائر ہے۔