فاطمہ قریشی
ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حسب معمول اپنے صحابیوں کے ہمراہ اللہ کا پیغام سناتے ہوئے گھر تشریف لا رہے تھے کہ راستے میں ابولہب سے ملاقات ہوئی۔ پیارے حبیبﷺ نے ادب سے سلام کیا، ابولہب نے دعائیں دیں اور اپنے گھر لے جاکر اپنی بیگم کو خوشی سے بتایا کہ ’’دیکھو! محمدﷺ آئے ہیں‘‘۔ بیوی بڑی خوش ہوئی اور ثویبہ کو ناشتہ لانے کے لئے کہا، جنھوں نے بڑی مسرت سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دودھ کا پیالہ اور کھجوریں پیش کیں اور شفقت سے آپﷺ کے سرپر ہاتھ رکھ کر بے شمار دعائیں دیں۔
ابولہب نے آپﷺ سے پوچھا: ’’میں نے سنا ہے کہ ہمارے خدا آپ سے باتیں کرتے ہیں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’شیبہ نے سچ کہا ہے چچا جان!۔ یہ درست ہے اور آپ بھی جانتے ہیں کہ ہر ذرہ خدا کی تسبیح کرتا ہے‘‘۔
ابولہب نے کہا: ’’ہاں ہاں وہ تو ٹھیک ہے، مگر تم نے یہ تیسرا کلمہ کیا جوڑا ہے؟۔ بیٹا! یہ سچ نہیں ہے، لہذا ایسی باتیں نہ کرو‘‘۔
اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’چچا جان! رب کعبہ نے مجھے یہی حکم دیا ہے‘‘۔ چچی نے آپﷺ کی یہ بات سن کر بہت ناراضگی ظاہر کی۔ آپﷺ نے چچا اور چچی کو دین حق کی دعوت دی۔ ابولہب نہایت بَرہم ہوا اور ساتھ ہی چچی کو بھی بہت غصہ آیا۔ آپﷺ نے اجازت چاہی اور اپنے گھر کے لئے روانہ ہو گئے۔
ابولہب غصے میں بڑبڑاتا رہا: ’’یہ تو سراسر گمراہی کے راستے پر جا رہا ہے، اس تباہی کے راستے سے اس کو روکنا ہی پڑے گا‘‘۔ چچی ہاں میں ہاں ملاتی رہی، جب کہ بی بی ثویبہ آپﷺ کے تحفظ و سلامتی کی دعا کرتی رہیں۔
جب پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہلیان مکہ اور رؤسا کو دین حق کا پیغام سناتے تو ان کے غلام بھی آپﷺ کی گفتگو اور حق کا پرچار سنتے اور اس پر غور کرتے، مگر خوف کی وجہ سے کچھ نہ کہتے اور نہ ہی کچھ پوچھ پاتے۔ اپنے مالکوں کا خوف و دہشت ان غلاموں پر بہت شدت سے طاری رہتا۔ ایک دفعہ دو تین غلام آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اسی دوران پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان پہنچ گئے اور فرمایا: ’’کیا آپ لوگ ہماری بات سنیں گے؟‘‘۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (جو اس وقت ان کے درمیان موجود تھے) عرض کیا: ’’آپ کی باتیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور دل میں اُتر جاتی ہیں، لہذا ہم ضرور سنیں گے‘‘۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ کا کرم ہے کہ آپ لوگ حق و باطل کا فرق جاننا چاہتے ہو، میری بھی یہی خواہش ہے کہ آپ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاؤں، مگر فکر اس بات کی ہے کہ آپ لوگوں کے مالکان آپ لوگوں پر ظلم و ستم نہ کریں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے سامنے کوئی غلام ہے نہ کوئی آقا، ہم سب اس پاک ذات کے سامنے برابر ہیں۔ آپ لوگ خدائے واحد سے ڈریئے اور کسی بات کا خوف نہ کیجئے‘‘۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر لوگوں نے عرض کیا: ’’ہم سب آپ کی صحبت کو بہتر سمجھتے ہیں، آپ کا احسان و شکر کرتے ہیں اور ہم سب آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔
پھر اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی آپﷺ سے ملتے رہے۔ دین حق کو سمجھتے اور اس کا پرچار کرتے اور پھر دین حق کی خاطر ان حضرات نے بے شمار تکالیف برداشت کیں اور قربانیاں پیش کیں۔