دسہرہ اور بتکما تعطیلات سے تعلیمی اداروں پر منفی اثر

حکومت کا فیصلہ اسکول انتظامیہ کے لیے چیالنج ، مختلف اسکولس کے منتظمین کا اظہار خیال
حیدرآباد ۔ 24 ستمبر ۔ (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ کی جانب سے دسہرہ اور بتکما کے سلسلے میں تعطیلات کے اعلان نے تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کو مشکلات میں مبتلا کردیا ہے ۔ خانگی تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کے بموجب اچانک اس طرح کے احکامات سے جو تعلیمی کیلینڈر تیار کیا گیا ہے اس پر کافی اثرات مرتب ہوں گے اور اس کے منفی اثرات طلبہ پر پڑسکتے ہیں۔ عموماً کسی بھی تہوار کی طویل تعطیلات کا اطلاق خانگی اسکولوں پر اُن کی سہولت کے اعتبار سے ہوا کرتا تھا لیکن اس مرتبہ خانگی اسکولوں کو دسہرہ اور بتکماں کی تعطیلات کیلئے پابند بنائے جانے پر اسکول انتظامیہ حیرت میں مبتلا ہوچکے ہیں چونکہ حکومت کی جانب سے نہ صرف بتکما کو سرکاری تہوار کے طورپر منانے کا اعلان کیا گیا ہے بلکہ بتکما تہوار کے دوران اسکولوں کو تعطیلات دینے کے اعلان کا اچانک فیصلہ کرتے ہوئے اس فیصلے کو قابل عمل بنانے کی سخت ہدایات جاری کی گئی ہے ۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے بیشتر منڈلوں میں محکمہ تعلیم کے عہدیداروں کی جانب سے اسکول انتظامیہ کو سرکاری احکامات سے واقف کرواتے ہوئے انھیں 26 ستمبر تا 6 اکٹوبر اسکول بند رکھنے کی تاکید کی گئی ۔ حکومت کے اس اچانک فیصلے کے متعلق دریافت کئے جانے پر جناب محمد لطیف خان مینجنگ ڈائرکٹر ایم ایس گروپ آف انسٹی ٹیوشن نے بتایا کہ حکومت کا یہ فیصلہ اسکول انتظامیہ کیلئے چیلنجنگ ثابت ہوگا ۔ چونکہ جو منصوبہ تعلیمی سال کیلئے اسکول انتظامیہ نے تیار کیا تھا ، اُس منصوبہ میں اچانک آئی اس تبدیلی سے تعلیمی ادارے سال کے آخر میں خصوصی کلاس کے انعقاد پر مجبور ہوجائیں گے ۔ انھوں نے بتایا کہ اچانک کئے گئے اس فیصلے پر عمل آوری تو ضروری ہے لیکن مکمل سال کے تعلیمی کیلنڈر میں ترمیم بھی ناگزیر ہوچکی ہے ۔ جناب محمد لطیف خان نے کہا کہ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جاریہ سال ایس ایس سی طلبہ کے طریقہ امتحان و تعلیمی نصاب میں کافی تبدیلیاں لائی گئی ہیں اور اس نصاب کیلئے طلبہ کو تیار کرنے میں جو دشواریاں پیش آرہی ہیں اس سے محکمہ تعلیم اچھی طرح سے واقف ہے ۔ اس کے باوجود اس طرح کے فیصلے اسکول انتظامیہ کیلئے تکلیف کا باعث ہیں۔ جناب فضل الرحمن خرم ڈائرکٹر ڈان ہائی اسکول نے حکومت کے فیصلے کو غیرمتوقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم کو لازمی قرار دینے کی ایک جانب کوششیں کی جارہی ہے اور دوسری جانب تعطیلات میں اضافہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہورہی ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ بتکما اور دسہرہ کے موقع پر طویل تعطیلات کا اعلان حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے اسی لئے اس پر عمل تو ہوگا لیکن اس کے جو اثرات مرتب ہوں گے اُس سے طلبہ کا ہی نقصان ہونے کا خدشہ ہے ۔ جناب فضل الرحمن خرم نے بتایا کہ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اسی لئے کسی بھی چیز پر تعلیم کو فوقیت دیا جانا اشد ضروری ہے ۔ جناب عبدالحمید نے بتایا کہ اب تک جو تعطیلات کا اعلان کیا جاتا تھا اُس پر خانگی اسکولس اپنی سہولت کے مطابق عمل کیا کرتے تھے ۔ جیسے اگر تلسنکرات کی طویل تعطیلات کا اعلان ہوتا تو اقلیتی تعلیمی ادارے ان تعطیلات کو مختصر کرتے ہوئے بچی ہوئی تعطیلات کا استعمال اقلیتوں کے عید و تہوار کے موقع پر کیا کرتے تھے ۔ اس طرح تعلیمی منصوبہ کو مکمل طورپر قابل عمل بنانے کے ساتھ ساتھ تعطیلات کا صحیح استعمال بھی ہوا کرتا تھا ۔ انھوں نے بتایا کہ سال حال حکومت کی جانب سے چھٹویں تا ایس ایس سی جماعت کیلئے کنٹینویس کامپریہنسیو ایجوکیشن سسٹم متعارف کراتے ہوئے امتحانی طریقہ کار کے علاوہ دیگر تعلیمی اصلاحات روشناس کروائے ہیں۔ ان تعلیمی اصلاحات پر موثر عمل آوری کیلئے یہ ضروری ہے کہ طلبہ کو حاضری سے مستثنیٰ قرار دینے سے اجتناب کیا جانا چاہئے ۔ انھوں نے بتایا کہ اقلیتی اسکولوں کو اس بات کا اختیار برقرار رکھا جانا چاہے کہ وہ کرسمس ، دیوالی ، دسہرہ کے موقع پر دی جانے و الی طویل تعطیلات کو اپنی سہولت کے اعتبار سے مختصر کرتے ہوئے ان تعطیلات کا رمضان ، عیدالاضحی اور مقدس راتوں کے موقع پر کریں۔دیگر اسکولوں کے ذمہ داران نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے اچانک تعطیلات کے اعلان سے تعلیم متاثر ہونے کا خدشہ ہے اسی لئے حکومت کو چاہئے کہ نہ صرف تعطیلات کے اعلان کو قابل عمل بنائے بلکہ ان تعطیلات کے درمیان جو تعلیم متاثر ہوئی ہے اس کیلئے خصوصی کلاسس کے اہتمام کی اجازت فراہم کرے۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے بموجب یقینا اس عمل سے طلبہ کی تعلیم تو کچھ حد تک متاثر ہوگی لیکن حکومت نے جو اقدام کیا ہے اُسے غلط قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ خانگی اسکولوں کے ذمہ داران کا بھی کہنا ہے کہ حکومت کا اقدام غلط نہیں ہے بلکہ تعلیمی سال کے درمیان اچانک طویل تعطیلات کے اعلان سے سال بھر کے منصوبے میں بڑی تبدیلی لانی پڑے گی اور سالانہ امتحانات سے قبل نصاب کی تکمیل کو یقینی بنانے میں دشواری پیدا ہوں گی ۔