درحقیقت دنیا میں عدل و انصاف کی حکمرانی

روحِ اسلامی

روحِ اسلامی درحقیقت دنیا میں عدل و انصاف کی حکمرانی ہے ، ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہے ، امن و سلامتی کی بحالی ہے ، ظالم اور مجرم کا مواخذہ کرنا اور اس کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے اور یہ رسالت و نبوت کے بنیادی مقاصد میں سے ہیں۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’آپ فرمادیجئے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے ‘‘۔ (سورۃ الاعراف ۷؍۲۹) ، ’’ہر اُمت کے لئے رسول ہے اور جب ان کے رسول آتے ہیں تو ان کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلے کئے جاتے ہیں اور ان پر ظلم نہیں ہوتا ‘‘( سورۃ یونس : ۱۰؍۴۷)
اس ضمن میں مزید ایک جامع آیت شریفہ قابل ذکر ہے جس کو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خطبہ جمعہ کے اختتام پر شامل کیا تھا اور تاحال دنیا کے طول و عرض میں یہ آیت شریفہ ہر خطبۂ جمعہ میں منبر رسول سے تلاوت کی جاتی ہے اور وہ حسب ذیل ہے : إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبىٰ وَيَنْهىٰ عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَo
یقینااﷲ تعالیٰ عدل اور احسان کا اور رشتہ داروں کو عطا کرنے کاحکم فرماتا ہے اور فحش و منکرات اور ظلم سے منع کرتا ہے وہ تمکو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ۔ (سورۃ النحل ۱۶؍۹۰)
اس آیت شریفہ کے پہلے جز ’’عدل و انصاف ‘‘ کی جامع تفصیل مندرجہ ذیل آیت میں ہے : اے ایمان والو ! انصاف پر قائم رہو ، اﷲ کے لئے گواہ رہو ، اگرچہ وہ تمہارے یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہو اگر وہ مالدار ہو یا محتاج اﷲ ان دونوں کا تم سے زیادہ خیرخواہ ہے پس تم انصاف کرنے میں دل کی خواہش کی پیروی نہ کرو ، اگر تم نے سچ بات برابر ظاہر نہ کی یا منہ موڑ لئے تو یاد رکھو اﷲ تعالیٰ جو تم کرتے ہو اس سے باخبر ہے ۔ ( سورۃ النساء ۴؍ ۱۳۵)
پس مظلوم کی مدد کرنا اور ظالم کے ہاتھ کو روکنا نہ صرف حکم خداوندی و پیغمبرانہ عمل ہے بلکہ انسانیت اور مرؤتِ نفس کی علامت ہے اور جس میں یہ جوہر نہ ہو وہ انسانیت اور مرؤت سے عاری ہے ۔
حضرت نبی اکرم ﷺ کی عمر شریف پندرہ برس تھی جب مکہ مکرمہ میں یمن کے ایک معروف شہر ’’زبید‘‘ کے باشندہ سے عاص بن وائل کچھ ساز و سامان خریدتا ہے اور اس کا حق روک لیتا ہے وہ باشندہ اشرافِ مکہ سے مدد کی فریاد کرتا ہے لیکن عاص بن وائل کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے کسی نے اس کی مدد نہ کی پھر وہ خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر اہل انسانیت اور بامروت اصحاب سے فریاد کرتا ہے تو زبیر بن عبدالمطلب اس کی تائید میں کھڑے ہوتے ہیں چنانچہ بنوہاشم ، زھرہ ، بنوتیم بن مرۃ تین قبائل کے اہم لوگ عبداﷲ بن جدعان کے گھر میں دعوت پر جمع ہوتے ہیں اور ذوالقعدہ کے مہینے میں حرم شریف میں ایک معاہدہ پر اتفاق کرتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ظالم کے خلاف مظلوم کی ایک ہاتھ ہوکر مدد کریں گے ۔ یہاں تک کہ ظالم سے حق لیکر مظلوم کو دلوائیں گے پھر وہ عاص بن وائل کے پاس جاتے ہیں اور اس یمنی ( زبید کے رہنے والے ) کو اس کا ساز و سامان دلوادیتے ہیں ۔ اس معاہدہ کو تاریخ میں ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ اس میں ’’فضل‘‘ نامی اشخاص فضل بن حارث، فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ شریک تھے۔ اعلانِ نبوت کے بعد بھی حضور پاک ﷺ اس معاہدہ کو یاد کرتے اور فرماتے جو بھی اس معاہدہ کی دہائی دے گا میں اس کی مدد کے لئے آگے آؤں گا ۔
حضرت مخدوم الملک شرف الدین احمد منیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سرصدی مکتوبات میں عہد نبوی کا ایک ایمان افروز واقعہ ذکر کیا۔
’’حضرت بلال مؤذنِ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت رسالتمآب ﷺ کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر میں مکہ میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا پیغمبر علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ باہر جاکر دیکھو ، جب میں باہر آیا تو ایک نصرانی کو کھڑا دیکھا ، اس نے پوچھا محمد ﷺ یہاں ہیں ؟ میں نے کہا : ہاں ۔ وہ گھر کے اندر آیا اور کہا : یامحمد! آپ کہتے ہیں کہ میں خدا کا رسول ہوں اور خدا کا بھیجا ہوا ہوں ، مجھ کو اور لوگوں کو دین اسلام کی تعلیم دیتے ہیں اگر آپ رسول برحق ہیں تو اس کو دیکھو کہ قوی ضعیف پر ظلم نہ کرے ، پیغمبر علیہ السلام نے پوچھا تم پر کس کس نے ظلم کیا اس نے کہا: ابوجہل نے میرا مال لے لیا ہے ، یہ وقت آپ ﷺ کے قیلولہ کا تھا اور بڑی گرمی پڑ رہی تھی لیکن آپ ﷺ اسی وقت روانہ ہوئے تاکہ مظلوم کی مدد فرمائیں میں نے (حضرت بلالؓ نے ) عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ ! قیلولہ کا وقت ہے ، گرمی پڑ رہی ہے ، ابوجہل بھی قیلولہ کررہا ہوگا ، وہ برہم ہوگا لیکن آپ ﷺ نہ رکے اور اسی طرح خشمگیں ابوجہل کے دروازہ پر پہنچ کر اس کو کھٹکھٹایا ، ابوجہل کو غصہ آیا اس نے اپنے بتوں لات و عزی کی قسم کھاکر کہا کہ جس نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے اس کو جاکر مار ڈالوں گا ، باہر آیا تو دیکھا کہ حضرت رسالتمآب ﷺ کھڑے ہیں بولا کیسے آئے ، کسی آدمی کو کیوں نہ بھیج دیا ، پیغمبر علیہ السلام نے غصہ میں فرمایا ، اس نصرانی کا مال تم نے کیوں لے لیا ہے ، اس کا مال واپس کردو، ابوجہل نے کہا ، اگر اسی کے لئے آئے تو کسی آدمی کو کیوں نہ بھیج دیا مال واپس کردیتا ، پیغمبر ﷺ نے فرمایا : باتیں نہ بناؤ ، اس کا مال واپس کردو ابوجہل اس کا تمام مال باہر لایا اور اس کے حوالہ کیا ، نصرانی سے پیغمبر ﷺ نے فرمایا : اب تو تمہارا مال تمہارے پاس پہنچ گیا ، اس نے کہا لیکن ایک اونی تھیلا رہ گیا ۔ پیغمبر ﷺ نے (ابوجہل سے ) فرمایا تھیلا بھی دو ، ابوجہل نے کہا ، اے محمد ﷺ تم واپس جاؤ ، میں اس کو پہنچادوںگا حضرت رسالتمآب نے فرمایا میں اس وقت تک واپس نہ جاؤں گا جب تک تم تھیلا بھی واپس نہ کردوگے ، ابوجہل گھر کے اندر گیا ، اس کو وہ تھیلا نہ ملا لیکن اس سے بہتر تھیلا لایا اور بولا ، وہ تو مجھکو نہیں ملا مگر اس سے بہتر لایا ہوں اور اسی کو اس کے بدلہ میں دیتا ہوں ، پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ، اگر تم یہ کہتے کہ وہ بہتر تھا تو میں اس وقت تک واپس نہ آتا جب تک میں قیمت لیکر تمہارے حوالہ نہ کرتا ، ایک دوسری روایت میں ہے پیغمبر ﷺ نے فرمایا جو کوئی مظلوم کی مدد کرتا ہے ، خدائے تعالیٰ قیامت کے روز پل صراط کو عبور کرنے میں اس کی مدد کریگا اور بہشت میں جگہ دیگا اور جو کوئی مظلوم کو دیکھتا ہے اور وہ مظلوم اس سے فریاد کرتا ہے لیکن وہ فریاد نہیں سنتا تو قبر کے اندر اس کو آگ کے سو کوڑے مارے جائیں گے ۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا جو کوئی مظلوم کی مدد کرتا ہے ، اس کے لئے تہتّر مغفرتیں لکھی جاتی ہیں ، ان میں سے ایک تو اس کو دنیا میں مل جاتی ہے اس سے اس کا کام سدھرتا ہے اور بقیہ بہتروں کے لئے عقبی میں ملتی ہے ‘‘ ۔
( تفصیل کے لئے سرصدی مکتوبات ص : ۴۹۲۔۴۹۳بحوالہ بزم صوفیہ ص : ۳۶۲۔۳۶۴)