درج فہرست طبقات و قبائل کے ملازمین کی ترقیوں میں تحفظات برقرار

’ترقیوں میں تحفظات کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا تھا‘ سپریم کورٹ کے نئے احکام مرکز کو راحت، طویل عرصہ سے جاری تعطل ختم
نئی دہلی ۔ 5 جون (سیاست ڈاٹ کام) مرکز کوایک بڑی راحت پہنچاتے ہوئے سپریم کورٹ نے درج فہرست طبقات و قبائل کے زمرہ سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو قانون کے مطابق ترقیوں میں تحفظات دینے کی اجازت دی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مرکز کے اس استدلال کو ملحوظ رکھا کہ مختلف ہائی کورٹس کی طرف سے منظورہ احکام کے نتیجہ میں ترقیوں کا سارا عمل ایک ہی مقام پر تھم گیا ہے اور تعطل کا شکار ہوگیا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی ایسے ہی ایک معاملہ میں 2015ء کے دوران جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کا حکم جاری کیا تھا۔ حکومت نے کہا کہ دہلی، بمبئی، پنجاب و ہریانہ ہائیکورٹس کی طرف سے درج فہرست طبقات و قبائل کے ملازمین کو ترقیوں میں بھی تحفظات کی فراہمی کیلئے الگ الگ فیصلے صادر کئے گئے تھے۔ ان فیصلوں کے خلاف کی جانے والی اپیلوں پر عدالت عظمیٰ بھی محتلف احکام جاری کرچکی تھی۔ جسٹس آدرش کمار گوئیل اور جسٹس اشوک بھوشن پر مشتمل ایک تعطیلاتی بنچ نے مرکز کی پیروی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل منندر سنگھ سے کہا کہ ’’ہم آپ (مرکز) سے کہیں گے کہ قانون کے مطابق ترقیاں دی جاسکتی ہیں‘‘۔ دوران سماعت ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کے مسئلہ پر قوانین کا حوالہ دیا اور کہا کہ نگراج مقدمہ میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے 2000 میں دیئے گئے فیصلہ کا اطلاق ہونا چاہئے۔ ناگراج فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں درج فہرست طبقات و قبائل کی ترقیوں میں اہل استطاعت اور خوشحال طبقہ کے نظریہ کا اطلاق نہیں ہوسکتا جس طرح 1992ء کے اندرا ساہنی و دیگراں بمقابلہ یونین آف انڈیا (جو منڈل کمیشن فیصلہ کے نام سے بھی مشہور ہے) اور 2005ء کے دوران ای وی چنیا بمقابلہ آندھراپردیش کا اطلاق ہوا تھا۔ یہ مقدمہ دیگر پسماندہ طبقات کے زمرہ میں خوشحال طبقہ سے متعلق تھا۔ منندر سنگھ نے کہا کہ دہلی ہائیکورٹ نے گذشتہ سال 23 اگست کو معلنہ اپنے فیصلہ کے ذریعہ حکومت کے اس حکمنامہ کو کالعدم کردیا تھا جو 16 نومبر 1992ء کے پانچ سال بعد کے درج فہرست طبقات و قبائل سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کو دی جانے والی ترقیوں میں تحفظات سے متعلق تھا۔ ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل قبل ازیں صادر کردہ احکام کا حوالہ دیا جس میں پانچ ججوں پر مشتمل دستوری بنچ کا گزارہ بھی شامل تھا اور استدلال پیش کیا کہ ایک حکمنامہ میں کہا گیا تھا کہ جہاں تک درج فہرست طبقات و قبائیل سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی ترقیوں میں تحفظات کا تعلق ہے ان پر ’جوں کا توں موقف‘ برقرار رکھا جانا چاہئے۔ انہوں نے جسٹس کورین جوزف کی قیادت میں ایک بنچ کی طرف سے 17 مئی کو منظورہ حکم کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس درخواست کا زیرتصفیہ رہنا کسی بھی صورت میں ترقیوں کے مقصد سے مرکز کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونا چاہئے۔