دخولِ جنت کیسے ممکن؟

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
حدیث پاک میں ہے کہ جنت میں فرشتے ہیں، جو جنتی لوگوں کا مکان بناتے ہیں۔ جو انسان ذکر الہی میں مصروف ہوتا ہے، اُدھر فرشتے جنت میں اس کا مکان بناتے رہتے ہیں اور جب وہ ذکر کرنا بند کردیتا ہے یعنی نیک عمل موقوف کردیتا ہے تو فرشتے مکان بنانا روک دیتے ہیں۔ دوسرے فرشتے پوچھتے ہیں کہ ’’تم نے مکان کا کام بند کیوں کردیا؟‘‘ تو مکان بنانے والے فرشتے جواب دیتے ہیں کہ ’’ہمارے پاس اینٹ گارا ختم ہو گیا‘‘ یعنی جتنی دیر ہم عبادت کرتے ہیں، اتنی دیر ہمارے مکان کی تعمیر جاری رہتی ہے۔ اب عورتیں اس بات پر غور کریں کہ جتنا وقت وہ تلاوت قرآن، نمازوں کی ادائیگی، تسبیحات پڑھنے اور اپنا دل اللہ کی یاد میں لگائیں گی، اتنی دیر تک ان کا مکان جنت میں بنتا رہے گا۔ حتی کہ ایک مرتبہ اگر کوئی بندہ ’’سبحان اللہ‘‘ کہتا ہے تو اللہ تعالی اس کی اس تسبیح کے بدلے جنت میں ایک درخت لگوا دیتا ہے۔ وہ درخت اتنا بڑا ہوگا کہ اگر عربی نسل کا گھوڑا ستر سال اس کے نیچے دوڑے تو اس کا سایہ ختم نہیں ہوگا۔

جنت کے مکان کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ کچھ لوگوں کے مکان سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنے ہوں گے اور ان کی تعمیر میں مشک کا گارا استعمال ہوگا، جب کہ مشک کی خوشبو ایسی ہوتی ہے کہ آدمی اگر ہاتھ میں لگالے تو دن بھر اس کے ہاتھ سے خوشبو آتی رہتی ہے، تو سوچئے کہ جس مکان کے گارے میں مشک کا استعمال ہو، وہ مکان کتنا معطر ہوگا۔ بعض جنتیوں کے لئے اللہ رب العزت سرخ یاقوت کا محل عطا فرمائے گا اور بعض ایسے لوگ ہوں گے، جن کو ہیروں کا مکان عطا فرمائے گا۔ پھر ان خوبصورت مکانوں کے اندر گلشن ہوں گے، باغ ہوں گے، پھل پھول ہوں گے، سبزہ ہوگا اور خوبصورت پرندے ہوں گے، یعنی انسان اپنے اس جنتی گھر میں بیٹھ کر خوشی اور لذت حاصل کرے گا۔ جنت کے درخت کے بارے میں آتا ہے کہ جب انسان کے دل میں خیال آئے گا کہ میں فلاں درخت کا پھل کھاؤں تو اس درخت کی شاخ اس کے قریب ہو جائے گی اور پھل اس کے منہ کے پاس آجائے گا، جس کو کھاکر بندہ لذت حاصل کرے گا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’بندہ جس حال میں بھی ہوگا، وہ پھل اسے وہاں مل جائے گا‘‘۔ واضح رہے کہ دنیا کے درختوں کا پھل حاصل کرنے کے لئے درخت کے قریب جانا پڑتا ہے، درخت پر چڑھنا پڑتا ہے یا نیچے سے کوئی چیز لے کر درخت پر مارنا پڑتا ہے، لیکن جنت کے درختوں کے پھل جہاں انسان ہوگا، وہیں بیٹھے بیٹھے اسے مل جائیں گے۔ پھر وہ جنتی درخت بھی عجیب ہوں گے، اللہ تعالی فرماتا ہے ’’ہر میوہ اور پھل کے جوڑے ہوں گے اور نہریں بھی جاری ہوں گی‘‘۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ہر درخت کے اوپر پھلوں کے ساتھ گھنگروؤں کی مانند کچھ چیزیں لگی ہوں گی۔ جب جنت میں ہوا چلے گی تو درختوں کی ٹہنیاں ہلیں گی اور وہ گھنگرو بجیں گے اور ان میں سے اتنی خوبصورت آواز پیدا ہوگی کہ جس کو سن کر انسان تمنا کرے گا کہ میں اس آواز کو سنتا ہی رہوں۔ یعنی جنتی باغ کے درخت پھل بھی دیں گے، سایہ بھی دیں گے اور ان میں سے ایسی آوازیں نکلیں گی کہ انسان ان آوازوں کو سن کر مست ہو جائے گا۔

حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ’’جنت کا گھر آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ چمکدار ہوگا‘‘۔ واضح رہے کہ اللہ تعالی نے کئی جنتیں بنائی ہیں، جن میں سے ایک کا نام درالجلال ہے، ایک کا نام دارالسلام ہے، ایک کا نام جنت الماویٰ ہے، ایک کا نام جنت الخلد ہے، ایک کا نام جنت النعیم ہے، ایک کا نام جنت القرار ہے، ایک جنت عدن ہے، ایک کا نام جنت الفردوس ہے۔ یہ جنت الفردوس وہ جنت ہے، جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت مکان عطا فرمائے گا۔ حدیث پاک میں ہے کہ تمام جنتوں کو اللہ تعالی نے فرشتوں سے بنوایا ہے، جب کہ ’’جنت عدن‘‘ کو اللہ تعالی نے خود بنایا ہے۔ یہ وہ جنت ہوگی، جہاں جنتیوں کو اللہ تعالی کا دیدار نصیب ہوگا۔ احادیث میں آتا ہے کہ جنت عدن کا گارا مشک کا ہوگا، اس کی گھاس زعفران کی ہوگی، اس میں لگے ہوئے پتھر موتیوں کے ہوں گے اور اس کی خاک عنبر کی ہوگی۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ’’کوئی نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے اللہ نے کیا کیا تیار کر رکھا ہے، یہ بدلہ ہے جو وہ نیک اعمال کرتے تھے‘‘۔

حدیث پاک میں اتا ہے کہ جنتی اپنے گھر کے (سیٹنگ کے) بارے میں جیسا تصور کریں گے، ویسا ہو جائے گا۔ پھر ایک بادل آئے گا اور اس بادل کے اندر سے دسترخوان لگادیا جائے گا، پھر اس بادل کے اندر سے دسترخوان پر برتن رکھ دیئے جائیں گے، پھر اس کے اوپر مشروبات ہوں گے، جو غلمان لاکر رکھ دیں گے، پھر اس کے اوپر میوے رکھے جائیں گے، پھر اس میں بھنے ہوئے پرندوں کے گوشت رکھ دیئے جائیں گے اور اس کے بعد سب خواتین بیٹھ کر اس میں کھانا کھائیں گی، ایک دوسرے کے ساتھ تذکرے کریں گی کہ دنیا میں ہم نے یہ یہ نیک کام کئے۔ رمضان المبارک کی راتوں کو جاگا کرتے تھے، یوں صلوۃ التسبیح پڑھا کرتے تھے اور یوں قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ یعنی ایک دوسرے سے دنیا میں کئے گئے نیک کاموں کا تذکرہ کرکے خوش ہوں گی۔ ان وقتوں کو یاد کریں گی اور کہیں گی کہ اللہ رب العزت نے ہم پر کتنا احسان کیا کہ ہمارے اعمال کو قبول فرماکر ہمیں ایسی جگہ عطا فرمادی۔

جنت میں کچھ اوقات ایسے بھی ہوں گے کہ جنتی درختوں سے اچانک اللہ اکبر، اللہ اکبر کی آواز بلند ہوگی اور جنتی فرشتے بھی اللہ اکبر کہنا شروع کردیں گے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ جیسے ہی اللہ اکبر کی آوازیں بلند ہوں گی، جنتی لوگ یہ سمجھ لیں گے کہ اس وقت ہم دنیا میں نماز پڑھا کرتے تھے، گویا دن بھر میں پانچ مرتبہ جنت کے درختوں سے ان کو اللہ اکبر کی آواز سناکر ان کو اذان کی یاد دلائی جائے گی۔ پھر جمعہ کے دن کا پتہ اس طرح چلے گا کہ اس دن اللہ رب العزت کا دیدار نصیب ہوگا، یعنی جس دن اللہ تعالی کا دیدار نصیب ہوگا، جنتی سمجھ لیں گے کہ یہ جمعہ کا دن ہے، گویا ایک ہفتہ گزرگیا اور جنتی لوگ جمعہ کے انتظار میں رہیں گے۔ (اقتباس)