دامانِ تر کو آج تک اس کی خبر نہیں طوفان کتنے دیدۂ پُر نم گذر گئے

مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی سازش
ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا کوئی بھی بہانہ تلاش کرنے والی ہندوتوا تنظیموں نے اس مرتبہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں 80 سال سے آویزاں محمد علی جناح کے پورٹریٹ کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کیمپس میں تشدد برپا کیا ہے۔ پولیس سرپرستی میں طلباء پر حملے اور نعرے بازی کے باوجود کوئی ایف آئی آر درج نہیں کیا گیا۔ دارالحکومت دہلی کے قریب گڑگاؤں میں مسلمانوں کو گذشتہ 3 جمعہ سے نماز جمعہ ادا کرنے سے روکنے کی کوشش کرنے والے ہندو گروپس نے اب یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے ہریانہ کے اس ترقی یافتہ ٹاؤن میں 10 مقامات پر مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا کرنے نہیں دیا۔ مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت عام انتخابات سے ایک سال قبل ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے والے واقعات کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک خوفزدہ ماحول پیدا کرنے کی کھلی چھوٹ دیتی نظر آرہی ہے۔ اپنے انتخابی وعدوں میں بُری طرح ناکام مودی حکومت عام انتخابات میں عوام کا سامنا کرنے سے خائف نظر آرہی ہے۔ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے اکثریت کی نظروں کے سامنے اقلیتی طبقہ کو زچ کرنے انہیں محمد علی جناح کا حامی بتانے والی سازشیں کررہی ہے۔ مسلمانوں کو ان کی عبادتوں سے روکنے کی کوشش سوائے اشتعال انگیزی کے ذریعہ انہیں اکسانے کی سازش کچھ نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو ہر زاویہ سے پریشان کرکے انہیں ہندوتوا طاقتوں سے متصادم ہونے کیلئے ورغلایا جارہا ہے مگر مسلمانوں نے اپنے صبروتحمل کا قابل ستائش مظاہرہ کیا ہے۔ ہندوتوا کارکنوں کو نفرت کے میدان کا ہیرو بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کیخلاف نئے مسائل پیدا کررہے ہیں۔ انتظامی مشنری کو ہمنوا بنا لیا گیا ہے۔ جس طرح گجرات میں کارسیوکوں کو زندہ جلانے کے الزام میں مسلم کش فسادات برپا کروائے گئے تھے، ہوسکتا ہیکہ 2019ء سے قبل ملک کے بعض حساس علاقوں میں مسلمانوں کو ورغلا کر ہندوتوا تنظیموں کے کارکنوں کیساتھ تصادم کی نوبت پر لاکھڑا کیا جائے تاکہ کسی بہانے سے ان مسلمانوں کو زندہ درگور کرنے کا موقع مل سکے۔ اب تک مسلمانوں نے انتہائی صبروضبط سے کام لیا ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کیخلاف پولیس سرپرستی میں جس طرح کی بہیمانہ کارروائیاں کی گئی ہیں اس پر برہمی ظاہر کرنے والے طلباء کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ملک کی یونیورسٹیوں میں ہندوتوا رنگ دینے کا عمل دو سال قبل جواہر لال نہرو یونیورسٹی، حیدرآباد یونیورسٹی سے شروع ہوا تھا۔ اب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں یہی ڈرامہ بازی کی جارہی ہے۔ طلباء کو قوم دشمن قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں ہندوتوا سیاستداں اور وزراء اپنے ایک ایجنڈہ پر عمل پیرا ہیں جو خطرناک حالات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ عوام کے معاش سے مربوط مسائل حل کرنے میں ناکام حکومت کو یقین ہوگیا ہیکہ وہ عوام کے سوالات و برہمی کا سامنا نہیں کرسکتی۔ اپنے وعدوں کے محاذ پر یکسر ناکام مودی حکومت سوائے انتشار پھیلانے کے دوسرا کوئی کام نہیں کررہی ہے ۔ مسلمانوں کو بدنام کرو اور اقتدار کو مضبوط کرو کی پالیسی پر توجہ مرکوز کرلی گئی ہے۔ مسلمانوں کو قوم دشمن ثابت کرنے کے بعد انتخابی فائدہ ضرور ہوگا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کے پورٹریٹ کی تاریخی حقیقت یہ ہیکہ یہ پورٹریٹ 1938ء سے یہاں آویزاں ہے۔ جناح کو ہندو۔ مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیا جاتا ہے۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ وہ پہلے واحد شخص ہیں جنہیں گاندھی جی سے توثیق ملی ہے۔ ان کے بعد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ہال میں امبیڈکر، مولانا آزاد، سی وی رامن، راجندر پرساد، کے ایم ششی، جئے پرکاش نارائن، مدرٹریسا اور کئی دیگر شخصیتوں کے پورٹریٹ آویزاں ہیں۔ فروری 2005ء میں وزیراعظم مودی نے بمبے ہائیکورٹ میوزیم کا افتتاح کیا تھا جس میں محمد علی جناح کی بیرسٹر سرٹیفکیٹ کے ساتھ گاندھی جی اور دیگر کی سندوں کو رکھا گیا ہے۔ اس وقت یہی زعفرانی طاقتوں نے تاریخ کی اس عدالتی سچائی کے خلاف احتجاج نہیں کیا۔ اب جبکہ مودی حکومت کو عوام کی نظروں سے گرتا ہوا محسوس کیا جارہا ہے تو مسلمان اور ان کے نام سے مربوط ہر ادارہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ملک بھر میں ہندوتوا حامی ٹی وی چینلوں، رائیٹ ونگس گروپس، حکومت کے نمائندوں نے اچانک واویلا مچانا شروع کیا ہیکہ مسلم یونیورسٹی میں موافق پاکستان اور قوم دشمن عناصرجمع ہوگئے ہیں۔ فرقہ پرست سیاستدانوں اور تعصب پسند میڈیا کے گٹھ جوڑ نے ایک ایسی نفرت کی چنگاری بھڑکادی ہے جو شعلہ بن سکتی ہے۔ مسلمانوں کو ہر طرح سے ملک دشمن قراردینے کی سازش ہورہی ہے۔ لہٰذا ملک کے سیاسی اور فرقہ پرستوں کی سازش منصوبوں کو مدنظر رکھ کر مسلمانوں کو ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ملک کو اس وقت ہر قدم پر یکجہتی کی ضرورت ہے۔ صبر سے کام لیں تو یہ ناپاک طاقتیں ہزارہا مداخلت کے بعد ازخود دم توڑ دیں گی۔
مودی کا خفیہ ایجنڈہ کیساتھ معلنہ دورۂ چین
مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت حکومت کی خارجہ پالیسی خاص کر پڑوسی ملکوں کے تعلق سے پالیسی میں بڑا فرق دیکھا جارہا ہے۔ پاکستان کیساتھ حکومت کا نظریہ دشمنی کی تمام حدوں کو عبور کرتا نظر آتا ہے تو دوسرے پڑوسی ملک چین کے معاملہ میں بھیگی بلی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ سوال یہ اٹھ رہا ہیکہ وزیراعظم کی حیثیت سے مودی نے ملک کے وقار، طاقت اور مرتبہ کوچین کے سامنے آیا گروی رکھ دیا ہے؟ کیونکہ انہوں نے حال ہی میں چین کا غیرمعلنہ ایجنڈہ کے ساتھ دورہ کیا تھا اور بہت جلد دوبارہ دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آخر چین کو غیرمعلنہ ایجنڈہ کے ساتھ بار بار جانے کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہے یہ ملک کے عوام کو جاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ڈوکلم کے مسئلہ پر ووہان میں صدر چین ژی جن پنگ سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور پھر وہ دوبارہ چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ ان کے یہ دورے ہندوستان کے مستقبل کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ جب کسی ملک کا نمائندہ یا ذمہ دار کسی دوسرے ملک کا دورہ کرتا ہے تو اس میں ایک ایجنڈہ اور مقصد ہوتا ہے۔ ماضی میں بڑے ملکوں کے نمائندوں نے اپنے خفیہ دوروں کے ذریعہ معلنہ ایجنڈہ پر عمل کیا تھا۔ 1970ء میں امریکہ کے ہنری کسنجر نے چین کا خفیہ دورہ کیا تھا جس کے بعد امریکہ۔ چین کشیدہ تعلقات میں بہتری آئی تھی ۔ان کا یہ دورہ خفیہ ضرور تھا مگر ایجنڈہ کھلا ہوا تھا ۔مودی معلنہ دورہ تو کررہے ہیں لیکن ان کا ایجنڈہ خفیہ ہے۔ کہیں یہ دورے عام انتخابات تک چین کی ہندوستانی علاقوں کو ہڑپنے کی پالیسی کو روکنے کی اپیل کا حصہ تو نہیں ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ چین ایک ایک انچ آگے بڑھ کر ہندوستان کے علاقوں پر قبضہ کرتا جارہا ہے۔ مودی حکومت اس جارحانہ کارروائیوں کے خلاف اپنی آنکھیں دکھانے کی ہمت ہی نہیں کی ہے بلکہ عام انتخابات تک سرحدی مسئلہ کو دبائے رکھنے کیلئے صدر چین کے سامنے التجائی موقف کیساتھ حاضر ہورہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہیکہ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی عمل سے عاری اور بے سمتی کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ بے وجہ پاکستان کو آنکھیں دکھانے والی مودی حکومت ڈوکلم مسئلہ پر خاموش اور چین کی معاشی جارحیت کے آگے بے بس ہے۔