حریت کو آج پھر ہے ابن حیدرؓ کی تلاش
وقت کو پھر ہے کروڑوں میں بہتر کی تلاش
داعش کی دہشت گردی
جمعہ کے دن دولت اسلامیہ (داعش) نے فرانس، تیونس اور کویت میں دہشت گرد حملے کرتے ہوئے کئی بے گناہ افراد کو ہلاک کیا۔ کویت کی ایک مسجد پر حملہ، تیونس کی تفریح گاہ میں سیاحوں کو نشانہ بنایا اور فرانس کی ایک فیکٹری پر حملے کرکے کئی لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ ان حملوں سے ساری دنیا ہل کر رہ گئی ہے۔ دہشت گرد کارروائیوں کے خلاف مؤثر جنگ کرنے والے ملکوں نے داعش کی کارروائیوں پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔ دولت اسلامیہ نے حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور یمن میں بھی اس طرح کے حملے کئے تھے۔ کویت کی مسجد میں دھماکہ اس وقت کیا گیا جب نمازی مصروف عبادت تھے۔ دھماکہ کے نتیجہ میں مسجد کی دیواروں اور چھت کو نقصان پہونچا۔ تیونس میں تفریحی مقام سوسہ میں سیاحوں کی دو ہوٹلوں پر حملے عالمی سطح پر دہشت گردی کے انتہا کو پہونچ جانے کا اشارہ ہے۔ مارچ میں ہی تیونس کے دارالحکومت تیونس میں ایک عجائب گھر پر حملہ کرکے 22 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ داعش کی کارروائیوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس نے اپنے ارکان کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی حرمت کا بھی خیال رکھنے کی ترغیب نہیں دی ہے۔ فرانس کی ایک فیکٹری میں حملے کے بعد دہشت گرد تنظیم آئی ایس (داعش) کا جھنڈا لہرایا گیا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ فرانس میں اس سال یہ دوسرا بڑا دہشت گرد حملہ ہے۔ اس سے پہلے اخبار شارلی ہبڈو کے دفتر پر حملہ کرکے 7 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ ان دہشت گرد کارروائیوں کا مقصد انسانی خون بہانا اور تباہی لانا ہے تو اس کی شدید مذمت کی جاتی ہے۔ اس سے معاشرہ میں مذہبی یا گروہ واری رقابت کو ہوا ملتی ہے۔ اپنی زندگی پوری آزادی سے جینے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے مگر دہشت گرد تنظیموں نے انسانی زندگیوں کو مقتل گاہ میں تبدیل کرکے کیا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے یہ ناقابل فہم ہے۔ جو لوگ برسوں سے امن کی زندگی گزارتے آرہے ہیں آج انھیں قاتلوں کا سامنا ہے تو اس طرح کی کارروائی کی سرکوبی کے لئے متحد ہوجانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی نے انسانی خون بہانے کی کارروائیوں میں سرحدوں کو پھلانگ دیا ہے۔ اس عالمی دہشت گردی سے سارا نظام آہستہ آہستہ بکھر جائے گا۔ جبکہ دہشت گردی کے خلاف ایسی کوئی مؤثر مزاحمت نظر نہیں آرہی ہے۔ دہشت گردی اور اس جنونیت کے خلاف ساری دنیا کی مجرمانہ خاموشی امن کے لئے بے پناہ مصائب و مشکلات انسانی جانوں کے لئے خطرات پیدا کررہی ہے۔ مگر داعش کی سرگرمیوں پر روک نہیں لگائی گئی اور لوگ اس عفریت کو روکنے کے لئے متحد نہیں ہوئے تو ساری دنیا کو ایک دن مصائب کا مرکز بنادیا جائے گا۔ دہشت گردی کو کچلنے کے لئے سرگرم مغربی دنیا کے لئے یہ ایک چیلنج بن کر اُبھر رہا ہے کہ داعش پر قابو پانے کے لئے دیگر متبادل اقدامات کونسے ہونے چاہئے۔ داعش کی دہشت گردی کا پہلا شکار مسلمان ہی بنتے جارہے ہیں جس کی مثالیں ان سے منسلک گروپوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے دیکھی جاسکتی ہے۔ داعش اسلامی پرچم تلے اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کے مرتکب ہورہا ہے۔ ان کارروائیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو منقسم کردیا جارہا ہے۔ کفر کے بعد مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنا سب سے بڑا گناہ ہے تو اس طرح کے خاطیوں کو ہرگز بخشا نہیں جانا چاہئے۔ داعش اور القاعدہ جیسے گروپوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے ان شدت پسندوں نے مذہب کے مقدس نام پر مسلمانوں کو کمزور کردیا ہے۔ اس تناظر یں کئی مسلم ممالک بے حد متاثر ہوتے جارہے ہیں۔ اب چونکہ داعش نے سرحدیں پھلانگ کر فرانس، کویت، تیونس کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا ہے تو پھر تمام عالم کے لوگوں کو متحد ہوکر دہشت گردی کی سرکوبی کے لئے عہد کرنا ہوگا۔ یہ خود ساتہ مسلم تنظیمیں جب خود مسلمانوں کا قتل کررہی ہیں تو اس میں ان کے مسلم ہونے پر شبہ یقین میں بدل جانا چاہئے۔ جو طاقتیں مسلمانوں کو تباہ کرنے مسلم ممالک کو کمزور کرنے، ان کے وسائل لوٹنے اور اسلام کو نقصان پہونچانے کے لئے ایسی تنظیموں کی سرپرستی کررہے ہیں تو ان کے خلاف ساری دنیا کو امن پسند ملکوں کو مورچہ بند ہونے کی ضرورت ہے۔
عالمی معیشت اور ہندوستان
عالمی سطح پر معیشت کی رفتار میں کمی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر رگھورام راجن نے دنیا بھر کے تمام سنٹرل بینکوں سے کہاکہ وہ ایسے نئے قوانین بنائیں جس کی مدد سے گرتی معیشت کو سنبھالا دیا جاسکے۔ ان کے مطابق موجودہ عالمی معیشت کو 1930 ء کے دہے کی سب سے بدترین گراوٹ کا شکار ہونا پڑے گا۔ راجن نے مسابقتی مالیاتی پالیسی بنانے کے خلاف انتباہ دیتے ہوئے مرکزی بینکوں کو مشورہ دیا کہ وہ عالمی سطح کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کو روکنے کے لئے مؤثر پیشگی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگرچیکہ ہندوستان میں معاشی صورتحال مختلف ہے اس کے باوجود ریزرو بینک آف انڈیا کو سرمایہ کاری میں اضافہ کے لئے شرح سود میں کمی لانی ہوگی۔ عالمی و قومی معیشت کا تقابل کرتے ہوئے انھوں نے ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ظاہر کی جس میں بہتر سے بہتر معاشی حل نکالا جاسکے۔ معیشت کے سدھار کے لئے بین الاقوامی ماہرین معاشیات کو موجودہ تقاضوں کے مطابق پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ اب تک کے تجربہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اب تک کیا ہوا ہے تجربہ تو یہ ہے کہ آئندہ کیا ہونا چاہئے۔ تجربہ کار ہی ایک اچھی معاشی پالیسی تیار کرسکتا ہے۔ ہندوستان میں مالیاتی پالیسیوں کو بنانے کے لئے عقل نہ سہی کامن سینس تو بہرحال لازمی ہونی چاہئے۔ شرح سود میں کمی اور مالیاتی پالیسیوں کی تدوین میں آر بی آئی نے اب تک بلاشبہ بہتر کام انجام دیئے ہیں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ’’بلی‘‘ بھی گرم توے پر صرف ایک بار ہی بیٹھتی ہے۔ زندگی بھر دوبارہ یہ رسک نہیں لیتی بلکہ اتنی تجربہ کار ہوتی ہے کہ دوبارہ کبھی ٹھنڈے توے پر بھی تشریف نہیں رکھتی لیکن ہمارے تجربہ کار ماہر معاشیات سیاستدانوں کی تابعداری کرنے کرتے بلیوں سے بھی گئے گزرے ہیں جو آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ پیداوار بڑھانے اور اس کی نکاسی کے لئے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ ہندوستان کی حکومتیں ہمیشہ اپنی بقاء کی خاطر ملک کی معیشت کو داؤ پر لگایا ہے جس کے نتیجہ میں آج کے حالات دنیا کے معاشی پالیسیوں کے سامنے بے سمتی کا شکار ہیں۔ یہ تو ان ماہرین معاشیات کی چالاکی ہے جو ہندوستانی معاشی صورتحال کو ابتر بنانے سے گریز کرتے ہوئے ہر سال ایک خوشنما معاشی پالیسی سامنے لاتے ہیں۔ یہ سراسر خود کو فریب دینا ہے۔ گورنر آر بی آئی نے ہندوستان کو دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر سرمایہ کے بہاؤ میں کام کرنے کی ضرورت ظاہر کی ہے اس کے لئے ہندوستان کو سب سے زیادہ حرکیاتی اور قواعد و رولس کا ماہر ہونے کی ضرورت ہے۔