داعش کیخلاف جنگ میں امریکہ و ایران کا مفاد مضمر:کیری

واشنگٹن ، 26 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ عراق اور شام میں برسرپیکار سخت گیر جنگجو گروپ دولت اسلامی (داعش) کوشکست سے دوچار کرنا امریکہ اور ایران کے مفاد میں ہے لیکن فی الوقت دونوں ممالک ایسا کرنے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون نہیں کررہے ہیں۔ انھوں نے یہ بات ارکان کانگریس کے روبرو ایک بیان میں کہی ہے۔انھوں نے کہا کہ ”وہ (ایرانی) داعش کی مکمل طور پر مخالفت کررہے ہیں اور ایران کے نزدیک واقع عراق کے سرحدی علاقے میں داعش کے ارکان سے لڑ رہے ہیں،ان کا قلع قمع کررہے ہیں اور انھیں خطے کے حوالے سے سنجیدہ تشویش لاحق ہے”۔ انھوں نے کہا کہ ”اگر ہم داعش کے خلاف ایک دوسرے سے تعاون نہیں کررہے ہیں تو کم سے کم ہمارا باہمی مفاد تو ضرور ایک ہے”۔البتہ جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ایران کو داعش کے خلاف جنگ میں شمولیت کیلئے نہیں کہا ہے۔ جان کیری نے قبل ازیں دسمبر میں ان اطلاعات کی تردید کی تھی کہ امریکہ اور ایران داعش کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں۔انھوں نے یہ بیان پنٹگان سے منسوب اس رپورٹ کے بعد جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایران نے عراق کے مشرقی علاقے میں داعش کے خلاف جنگ کیلئے اپنے لڑاکا طیارے بھیجے ہیں۔

صدر براک اوباما کی قومی سلامتی کی مشیر سوزین رائس نے بھی کچھ عرصہ قبل امریکہ اور ایران کے درمیان عراق اور شام میں سنی جنگجو گروپ داعش کے خلاف جنگ میں فوجی تعاون کی اطلاعات تردید کی تھی۔انھوں نے ایک نیوز بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ” ہم ایران کے ساتھ داعش سے متعلق کسی بھی طرح کے فوجی رابطے میں نہیں ہیں”۔ واضح رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان 1979ء سے سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود بعض امریکی عہدے داروں کا خیال ہے کہ ایران شام اور عراق میں جاری بحرانوں کے حل اور وہاں استحکام لانے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایران اور امریکہ اس وقت جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کو حتمی شکل دینے کیلئے مذاکرات کررہے ہیں۔اس مجوزہ معاہدے کے تحت ایران اپنے جوہری پروگرام کے حساس نوعیت کے کام، اعلیٰ سطح کی یورینیم کی افزودگی سے دستبردار ہوجائے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عاید مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیاں بتدریج ختم کردی جائیں گی۔

امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں بہت سے اتحادی ممالک اس وقت داعش کے خلاف عراق اور شام میں فوجی مہم میں شریک ہیں لیکن امریکہ نے ایران کو اس مہم میں شریک نہیں کیا ہے۔البتہ ایران اپنے طور پر عراقی فورسز اور صدر بشارالاسد کی وفادار فوج کی باغی گروپوں کے خلاف لڑائی میں معاونت کررہا ہے اور اس نے پاسداران انقلاب کے خصوصی دستے بھی سخت گیر جنگجو گروپوں کے خلاف لڑنے کیلئے بھیجے ہوئے ہیں۔ ایران سرکاری سطح پر تو عراق اور شام میں اپنی فوجی موجودگی کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ ان دونوں ممالک کو صرف حربی مشاورت فراہم کررہا ہے لیکن اس کے اعلیٰ فوجی عہدے داروں کی ان دونوں ممالک میں داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ لڑتے ہوئے ہلاک ہونے کی خبریں آئے دن منظرعام پر آتی رہتی ہیں۔پاسداران انقلاب کے دو تین جنرل بھی داعش کے خلاف لڑائی میں مارے جاچکے ہیں۔