واشنگٹن، 13 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) عراق و شام میں داعش کے جنگجو چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی تنظیم کا پورا نام لیں اور دولت اسلامیہ العراق و بلاد الشام کی بجائے اس کے مخفف ’’داعش‘‘ کا استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ موصل، عراق میں لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں داعش جنگجوؤں نے وارننگ دی ہے کہ جو کوئی دولت اسلامیہ العراق و بلاد الشام کی بجائے لفظ ’’داعش‘‘ کا استعمال کریں گے ان کی زبانیں کاٹ دی جائیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابوبکر البغدادی نے القاعدہ سے علیحدہ ہوکر اس تنظیم کو ایک نیا موڑ دیتے ہوئے اسے اسلام سے جوڑ کر مغربی طاقتوں کے علاوہ جزیرۃ العرب میں حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ لفظ اسلام سے متاثر ہوکر مغربی ممالک کے سفید فام جنگجو بشمول لڑکیاں داعش کیلئے دنیا سے لڑنے میں پیش پیش ہیں۔ دوسری طرف عرب ممالک میں ابوبکر البغدادی کی اس تنظیم کیلئے صرف لفظ ’’داعش‘‘ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ کسی بھی طرح اسے دولت اسلامیہ عراق و شام نہیں کہا جارہا ہے۔ داعش کے سربراہ نے عراق و شام کے بعض حصوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد نظام خلافت کا اعلان کردیا۔
اُنھوں نے خود کو خلیفہ قرار دیتے ہوئے دنیا کے تمام مسلمانوں سے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا حکم بھی دے ڈالا۔ جواب میں سعودی عرب سے لے کر ہندوستان تک علماء نے ابوبکر البغدادی کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے اسے اسلام دشمن طاقتوں کی آلہ کار دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ امریکی انٹلیجنس اور دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ داعش (دولت اسلامیہ العراق و بلاد الشام) کا نام دیتے ہوئے ابوبکر البغدادی دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جن علاقوں پر ان کا کنٹرول ہے وہ دراصل دولت اسلامیہ کا حصہ ہے اور وہاں داعش کی حکمرانی یا خلافت کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ سعودی علماء کی طرح مصر کے مفتی اعظم ابراہیم نجم نے گزشتہ ماہ عالمی برادری پر زور دیا تھا کہ وہ داعش کو القاعدہ کے علیحدہ شدہ گروپ کا نام دیں۔ دولت اسلامیہ العراق و بلاد الشام کے نام سے اس کے حوالے سے نوجوانوں میں غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں اور وہ داعش میں شامل ہورہے ہیں۔ دنیا میں جہاں داعش کے نام سے خوف و دہشت کی لہر پیدا ہوگئی ہے وہیں اس تنظیم میں سفید فام نوجوانوں کی کثیر تعداد میں بھرتی سے امریکہ، برطانیہ اور ان کے یورپی حلیفوں کے ہوش اُڑ گئے ہیں۔
ان حالات میں سی آئی اے نے یہ کہتے ہوئے صدر براک اوباما کے انتظامیہ کو مزید پریشان کردیا ہے کہ داعش کوئی کمزور تنظیم نہیں بلکہ عصری ہتھیاروں، وسائل اور سب سے بڑھ کر موت کا پیچھا کرنے والے جنگجوؤں سے لیس ہے اور ان جنگجوؤں کی تعداد 31 ہزار سے زائد ہے جس میں 5000 تا 8000 جنگجوؤں کا تعلق امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک سے ہے۔ سی آئی اے کے اس انکشاف پر شام میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کی منظوری دے چکے اوباما کافی فکرمند ہوگئے ہیں، تب ہی تو وہ اس جنگ کو سب کی جنگ کہہ رہے ہیں۔ ویسے بھی امریکہ ہر جنگ میں مسلم ممالک اور وہاں کے عوام کو تباہی و بربادی کے دلدل میں ڈھکیل دیتا ہے۔ پاکستان اس کی واضح مثال ہے۔ 2001 ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کے بعد سے تاحال 60 ہزار سے زائد پاکستانی شہری بشمول 60 ہزار سپاہی و پولیس اہلکار اس جنگ کی نذر ہوچکے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اپنی لڑائی دوسروں سے لڑاتا ہے اور اپنے مجبور حلیف کے کندھوں پر بندوقیں رکھ کر ان کے ٹریگر دبائے جاتے ہیں۔