مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں مذاکرہ ۔ صدر نشین قومی خواتین کمیشن ڈاکٹر للیتا کمارامنگلم و دوسروں کا خطاب
حیدرآباد 24 فبروری ( سیاست نیوز ) خواتین کے مسائل طبقہ کے اعتبار سے بدل نہیں رہے ہیں بلکہ تمام طبقات کی خواتین کے مسائل تقریباً یکساں ہیں۔ ان کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات اور جنسی تفرقہ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر للیتا کمارا منگلم صدرنشین قومی کمیشن برائے خواتین نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں مرکز برائے مطالعات نسواں کی جانب سے قومی کمیشن برائے خواتین کے تعاون و اشتراک سے منعقدہ مذاکرہ ’’ہندوستانی مسلم خواتین کی مرکزی دھارے میں شمولیت۔ مستقبل کا لائحہ عمل ‘‘ سے خطاب کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا ۔ انھوں نے بتایا کہ ہر طبقہ میں خواتین کے مسائل ہیں اور انھیں تقریباً ایک جیسی صورتحال کا سامنا ہے ۔ ان کے حل کیلئے جو نظام ترتیب دیئے جانے کی ضرورت ان میں سب سے بڑا دخل تعلیم کا ہے ۔ ڈاکٹر کمارا منگلم نے بتایا کہ تمام مذاہب میں سچائی ، دیانتداری ، مساوات کا درس دیا گیا ہے لیکن تعلیمی ادارے ان تعلیمات کو فراموش کرکے طلبہ میں مسابقت پیدا کررہے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں تقریباً 50 فیصد خواتین ہیں جنھیں نظر انداز کرکے ملک کی ترقی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا ۔ انھوں نے تعلیمی اداروں میں یکجہتی ، صلاحیت ، دیانتداری و سچائی کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی تربیت کی فراہمی کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین کو بھی دیگر طبقات کی خواتین کی طرح معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ غیرسرکاری تنظیموں و اداروں کو علحدہ مطالعات کی بجائے جن مسائل پر مطالعات ہوچکے ہیں اُنکے حل کیلئے اقدامات پر غور کرنا چاہئے ۔ پروفیسر فاطمہ علی خاں سابق صدر شعبۂ جغرافیہ عثمانیہ یونیورسٹی ، محترمہ ثمینہ شفیق رکن قومی کمیشن برائے خواتین، پروفیسر آمنہ کشور و دیگر موجود تھے ۔ پروفیسر آمنہ کشور نے کلیدی خطبہ کے دوران بتایا کہ تعلیم کا مطلب ادارے میں وقت گذارنا نہیں ہے بلکہ ذہن کی نشونما کے ساتھ وسعت کے علاوہ شخصیت کو بہتر بنانے کا نام تعلیم ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ تعلیمی اداروں میں ان اُمور پر غور کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ روزگار سے مربوط کرنے والی تعلیم اور مہارت کے ساتھ اخلاقیات کے فروغ کو بھی یقینی بنایا جاسکے ۔ انھوں نے اس نظریہ کو مسترد کرنے کی کوشش کی کہ خواتین کے تمام مسائل کیلئے مرد ذمہ دار ہیں۔ پروفیسر آمنہ کشور نے بتایا کہ خواتین کے مسائل کیلئے صرف مرد ذمہ دار نہیں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بات چیت اور علمی مذاکرات کے ذریعہ مسائل کے حل کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ پروفیسر آمنہ کشور نے کہا کہ علماء مرد وخواتین کی جس انداز سے مدد کررہے ہیں اُس سے یہ توقع پیدا ہورہی ہے کہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انھوں نے بتایا کہ سماجی دھارے میں مسلم خواتین کی شمولیت کو واضح کرنے کی ضرورت ہے چونکہ جو مسائل دیگر اقوام میں ہے وہی مسائل مسلم خواتین کے مسائل بنے ہوئے ہیں۔ محترمہ ثمینہ شفیق نے بتایا کہ جب مسائل ایک جیسے ہیں تو ان کے حل کیلئے بھی متحدہ طورپر کوششیں کی جانی چاہئے ۔ انھوں نے بتایا کہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے خواتین کے مسائل بظاہر یکساں نظر آرہے ہیں لیکن اُن کے حل کیلئے علحدہ علحدہ راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں اور انھیں حل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی ۔ اس علمی مذاکرہ میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرس و طلبہ کے علاوہ اساتذہ کی بھی بڑی تعداد شریک تھی ۔