سری نگر،27ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) وادی کشمیر میں میرواعظ مولوی عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس نے جنوبی کشمیر میں خواتین اور جواں سال لڑکیوں کی پر اسرار طورپرچوٹیاں کاٹنے کے واقعات پر شدید فکر و تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس غیر اخلاقی اور غیر اسلامی حرکت کے پیچھے جن عناصر کا بھی ہاتھ ہے ان کو بے نقاب کیا جانا چاہئے۔
سرینگر : بس اسٹینڈ کے قریب دھماکہ
سرینگر، 27 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں پنتھا چوک کے قریب مشتبہ دھماکے کے بعد، پورے علاقے میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیاہے ۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب اس علاقے میں بڑی تعداد لوگ موجود تھے ۔ انہوں نے کہا کہ پنتھا چوک کا پاس صفائی عملہ نے بس اسٹینڈ کے قریب کوڑے کے ڈھیر میں آگ لگا دی جس کے نتیجے میں دھماکہ ہوا۔
دھماکے کی آواز سننے کے بعد لوگ وہاں سے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے ۔ تاہم دھماکے کی وجہ سے جموں سرینگر قومی شاہراہ پر ٹریفک پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ سینئر پولیس افسران اور سیکورٹی فورسز نے جگہ پر پہنچ کر اس دھماکے کی وجوہات کی تحقیقات کی۔
حریت کے ایک ترجمان نے کہا کہ ان غیر انسانی حرکتوں کے پیچھے جن لوگوں کا بھی ہاتھ ہے وہ پورے سماج میں فساد اور خاص طور پر خواتین میں عدم تحفظ اور ہراسانی کا ماحول برپا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کے عوام ایک بلند نصب العین کے حصول کے لئے ایک منصفانہ جدوجہد میں مصروف عمل ہیں اور اس ضمن میں ہر سطح کی قربانیاں پیش کی جارہی ہیں تاہم عوام کی پر امن جدوجہد کے تئیں یکسوئی اور استقامت کو زک پہنچانے کے لئے سرکاری سطح پر اور ایجنسیوں کی جانب سے نت نئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے واقعات کے ضمن میں ریاستی انتظامیہ جس غفلت شعاری کا مظاہرہ کررہی ہے اور ان حرکات میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے وہ حد درجہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ضلع کولگام میں رواں ماہ کے دوران خواتین کے بال کاٹنے کے ایک درجن واقعات پیش آئے ہیں۔ بیشتر واقعات میں خواتین کے بال بیہوشی کی حالت میں کاٹے گئے ۔ دوسری جانب جموں خطہ کے مختلف حصوں میں خواتین کو بیہوش کرکے پراسرار طریقے سے ان کے بال کاٹنے کے اب تک کم از کم پانچ درجن واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان واقعات سے جہاں خواتین میں خوف وہراس کی لہر دوڑی ہوئی ہے ، وہیں پولیس اور فارنسک سائنس لیبارٹری اب تک اس معمے کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے ۔ چوٹی کاٹنے کا پہلا واقعہ رواں برس جون کے مہینے میں راجستھان میں سامنے آیا اور اس کے بعد ایسے واقعات ہریانہ، ہماچل پردیش ، مغربی اترپردیش اور دوسری ریاستوں سے بھی سامنے آنے لگے ۔