مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
حدیث پاک میں آتا ہے کہ موسیقی کا سننا کانوں کا زنا ہے۔ ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ ’’میں آلات موسیقی کو توڑنے کے لئے دنیا میں آیا ہوں‘‘۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ ’’موسیقی سننے سے دل میں گناہ کی خواہش اس طرح اُبھرتی ہے، جیسے بارش ہونے سے زمین کے اندر گھاس اُگتی ہے‘‘۔ اس طرح یہ شوق حقیقت میں گناہ کی طرف لے جانے والا شوق ہے، لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ خود کو موسیقی سے بچائے۔ شریعت نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جو بے پردہ پھرنے والی عورت فاسقہ ہو، پردہ دار عورت کو چاہئے کہ اس سے بھی اپنے آپ کو پردے میں رکھے، اس لئے کہ بے پردہ فاسقہ عورت بھی غیر محرم مرد کے حکم میں ہے۔ شریعت نے منع فرمایا کہ شادی شدہ عورت کو نہیں چاہئے کہ وہ دوسری عورتوں اور لڑکیوں کے سامنے اپنے خاوند کے ساتھ گزرے ہوئے خلوت کے لمحات کی باتیں سنائے، اگر کوئی عورت ایسی حرکت کرتی ہے تو شریعت میں اس کے لئے سخت وعید آئیہے۔
ایک مرتبہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی محفل میں بات چلی کہ سب سے بہترین عورت کون ہے؟۔ کسی نے کچھ کہا، کسی نے کچھ کہا۔ حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ گھر تشریف لے گئے اور حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا سے بتایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں یہ بات ہو رہی تھی۔ حضرت سیدہ فاطمہ نے فرمایا ’’میں بتاؤں کہ سب سے بہتر عورت کون ہے؟‘‘۔ حضرت علی نے فرمایا ’’بتائیے‘‘۔ حضرت سیدہ نے فرمایا ’’وہ عورت جو نہ تو غیر محرم کو خود دیکھے اور نہ کسی غیر محرم کو دیکھنے کا موقع دے‘‘۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اللہ کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوکر حضرت سیدہ فاطمہ کا یہ جواب بتایا تو آپﷺ نے فرمایا ’’فاطمہ تو میرے جگر کا ٹکڑا ہے‘‘۔ یعنی خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ’’سب سے بہترین عورت وہ ہے، جو خود نہ کسی غیر مرد کی طرف دیکھے اور نہ کسی غیر مرد کو اپنی طرف دیکھنے کا موقع دے‘‘ یعنی ہر نامحرم سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے غیر محرم سے اپنی نظر کی حفاظت کی، اس کو اللہ رب العزت عبادت میں لذت عطا فرماتا ہے‘‘۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ خوبصورت عورت کو دیکھنے سے آنکھیں خوش ہوتی ہیں، لیکن خوب سیرت عورت کو دیکھنے سے دل خوش ہوتا ہے، لہذا صورت کو سنوارنے کی بجائے اپنی سیرت سنوارنا چاہئے۔ اگر عورت کی شخصیت کے اندر بلندی ہو تو آنکھیں بغیر سُرمہ کے بھی خوبصورت نظر آسکتی ہیں، بشرطیکہ پلکیں شرم سے جھکی ہوئی ہوں۔ پیشانی بغیر کسی زیور کے بھی پرکشش ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس پر سجدے کے نشان ہوں۔ یہ بات ذہن میں بٹھا لینا چاہئے کہ دنیا تلوار کا مقابلہ تو کرسکتی ہے، لیکن کردار کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’آنکھ بگڑنے سے دل کی حفاظت مشکل ہے اور دل کے بگڑنے کے بعد شرمگاہ کی حفاظت مشکل تر ہے‘‘۔ عقل مند وہ ہے، جو دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور بے وقوف وہ ہوتے ہیں، جو غلطیاں کرکے دھکے کھاتے ہیں اور پھر ان کو سمجھ آتی ہے۔
اصولی بات یہ ہے کہ حسن ہی عورت کی تباہی کا ذریعہ بنتا ہے، عورت پر جتنی بھی آفتیں آتی ہیں، سب کی سب اس کے حسن کی وجہ سے آتی ہیں، اسی لئے شریعت نے مردوں کو حکم دیا کہ تم شریر عورتوں سے دور رہو اور اگر بھلی عورتیں بھی ہوں تو ان سے ہوشیار رہو۔ اچھی زندگیوں کی بنیاد حسن ظاہری نہیں ہوتا، بلکہ حسن باطنی اور اچھے اخلاق ہوا کرتے ہیں، کیونکہ ظاہری حسن فانی ہوتا ہے اور اخلاق کا حسن ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ’’حسن کی حقیقت فاصلہ ہے کہ انسان فاصلہ سے دیکھے تو حسن محسوس ہوتا ہے اور قریب آئے تو حسن ختم ہو جاتا ہے‘‘۔
انسان گناہ کرنے سے پہلے تو بڑا بہادر بنتا ہے، لیکن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اتنا بزدل ہو جاتا ہے کہ گناہ کو چھپانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے، یعنی شہوت وہ شیرنی ہے، جو چکھنے والے کو ہلاک کردیتی ہے۔ جو انسان یہ سمجھے کہ محبت کروں گا اور چھپی رہے گی یا میرے دل میں جو دشمنی ہے وہ چھپی رہے گی، وہ انسان بے وقوف ہے، یعنی محبت اور عداوت ایسی چیزیں ہیں، جو کبھی چھپی نہیں رہ سکتیں۔
واضح رہے کہ شہوت کی ابتدا چھوٹے کیڑے کی مانند ہوتی ہے، اس وقت اس کو مارنا آسان ہوتا ہے، جب کہ شہوت کی انتہا پھنکارنے والے اژدہے کی مانند ہوتی ہے، جو خود انسان کو ہڑپ کرجاتا ہے۔ لہذا حسن ظاہری کو بڑھانے کی بجائے حسن باطنی اور حسن اخلاق کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح کانٹوں کے اوپر پھول ہو تو شاخ کو خوبصورت بنادیتا ہے، اسی طرح جس گھر کے اندر نیک خاتون ہو، وہ اس گھر کو خوبصورت اور باعزت بنادیتی ہے۔ ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ انسان کو بہت سی چیزوں سے خوشی حاصل ہوتی ہے، لیکن جتنی خوشی اپنے آپ سے جیت کر ہوتی ہے، اتنی خوشی کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتی، لہذا مرد و خواتین کو چاہئے کہ اپنے آپ سے جیت کر زندگی کو خوشیوں والی بنائیں اور اپنے رب کے سامنے سرخروں ہو جائیں۔
خواتین کو چاہئے کہ خود کو غیر مردوں کی نظروں سے بچائیں اور اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کریں، اللہ تعالی ہم سب کا مددگار ہے اور نیکی کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمانے والا ہے۔ جو گناہ ہو چکے ہیں، ان سے سچی توبہ کی جائے، کیونکہ توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے۔ ماہ رمضان المبارک کے کچھ دن ابھی باقی ہیں، یہ ہماری خوش نصیبی ہوگی کہ ہم ان بابرکت گھڑیوں میں سچی توبہ کرلیں اور سچی معافی طلب کرلیں۔ (اقتباس)