خلیجی تعاون کونسل اور ایران

ایران اور دُنیا کی 6 بڑی طاقتوں کے درمیان 30 جون تک ہونے والے امکانی نیوکلیئر معاہدہ ، عرب ملکوں کے لئے کوئی خطرہ ہے یا اس سے خلیجی خطہ میں عدم استحکام پیدا ہوگا، یہ اندیشے اِن دنوں زور پکڑ رہے ہیں۔ خاص کر سعودی عرب نے ایران اور 6 بڑے ملکوں خاص کر گروپ کے اہم رکن امریکہ کے ساتھ ایران کی قربت کو مستقبل کی صورتحال کے لئے ’’فالِ نیک‘‘ نہیں سمجھا جارہا ہے۔ اگرچیکہ ایران کو نیوکلیئر معاہدہ سے اس پر عائد مغرب کی تحدیدات سے چھٹکارہ ملے گا۔ اس کی تیل کے ذریعہ ہونے والی آمدنی میں 100 بلین ڈالرس کا انجماد بھی ختم ہوجائے گا۔ ساری دنیا میں ایران کے قتیل کی سربراہی بحال ہوگی، اس کو بین الاقوامی تجارت کے لئے اس کے بینکنگ نظام کو بھی اجازت دی جائے گی۔ 30 جون کے بعد عالم اسلام میں ایران کے حوالے سے جو تشویش اور اندیشے پیدا ہورہے ہیں، اس کو سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اپنے نکتہ نظر سے دیکھا ہے۔ انہوں نے ایران کے تعلق سے صدر فرانس فرانسیس ہولینڈ نے بات چیت کی ہے کیوں کہ فرانس ان 6 ملکوں کے گروپ میں شامل ملک ہے جس نے ایران کے ساتھ مذاکرات میں سخت ترین موقف اختیار کیا ہے۔ سعودی عرب کی کوشش اس بات کی ہے کہ ایران کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے اس کو معاہدہ کا تابعدار بنایا جائے تاکہ علاقائی عدم استحکام کی کوششوں کی صورت میں اس کو اس کی ذمہ داری یاد دلائی جاسکے۔

خلیج عرب قائدین کو ایران کے معاملے میں جو تشویش ہے، یہ اس لئے ہے کہ خطہ میں مزید عدم استحکام کی کیفیت پیدا کرتے ہوئے ایران ان بڑی طاقتوں کے ساتھ اپنے معاہدہ کا غلط استعمال کرے گا لہذا ایران سے مذاکرات کرنے والے ملکوں امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ، چین اور جرمنی کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ معاہدہ کے بعد اس خطہ کا استحکام اور سلامتی برقرار رہے۔ خلیجی ملکوں کے خلیج تعاون کونسل کو اصل میں یہ تشویش ہے کہ بڑی طاقتوں سے معاہدہ کے بعد ایران اس خطہ میں اپنی تمام خفیہ سرگرمیوں کو شدت سے جاری رکھتے ہوئے ان پر بے دریغ رقومات خرچ کرے گا جیسا کہ ایران پر الزام ہے کہ وہ یمن میں حوثی باغیوں کی سرپرستی کررہا ہے۔ صدر فرانس کے دورۂ سعودی عرب کا مطلب یہی ہے کہ خلیجی تعاون کونسل کے اندیشوں اور تشویش کو دُور کیا جائے تو سعودی عرب کو دیئے گئے فرانس کے تیقن کے بعد یہ اندیشے دور ہونے چاہئے۔ عالم عرب میں ایران کے مفادات کے ساتھ ساتھ امریکہ، یوروپی یونین اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ اس لئے ایران پر عائد تحدیدات کو یکلخت تو ہٹایا نہیں جائے گا۔ مرحلہ وار طور پر ان تحدیدات کو اٹھاتے ہوئے ایران کی پالیسی اور نیت کو پرکھنے کا بھی مرحلہ وار موقع ملے گا۔ ایران کی قیادت میں بھی پہلے سے زیادہ ذمہ دارانہ احساس پایا جاتا ہے، خاص کر ایران کا اندرون ملک سیاسی اتحاد اب اس کی سب سے بڑی طاقت بن رہا ہے

کیونکہ اب ایران کے سخت گیر قائدین نے بھی مغرب کے ساتھ نرمی اختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ ماضی میں ایران کی بڑے اور اثردار گروپس مغرب کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوا کرتے تھے۔ اس وقت ایران کی داخلی سطح پر فروغ پانے والی سیاست اگر خطہ میں امن و خوشحالی کا موجب بن سکتی ہے تو پھر خلیجی تعاون کونسل کی تشویش بھی عارضی ہوگی۔ ایران پہلے ہی سے مغرب کی تحدیدات سے عالمی مارکٹ سے دُور ہوگیا ہے اور اس کی تیل کی پیداوار بھی گھٹ گئی ہے۔ اندرون ملک پیداوار میں کمی کے ساتھ افراطِ زر میں 40% اضافہ، بیروزگاری اور بیرونی سرمایہ کاری کا تکلخت ختم ہوجانا اقتصادی صورتِ حال کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے میں ایران، نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں مغربی ملکوں کے ساتھ معاہدہ کا مرحلہ طئے کرتا ہے تو آئندہ سال تک اس کی عالمی مارکٹ تک رسائی حاصل ہوگی اور کوئی بھی ملک یہ نہیں چاہئے گا کہ وہ اپنی غلطیوں سے علاقائی سطح پر عدم استحکام کی کیفیت پیدا کرکے اپنی معاشی پیشرفت کی راہ میں دوبارہ رکاوٹیں کھڑی کرلے۔ کسی کو اگر اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کا شوق ہو تو اس شوق کا نتیجہ سب ہی جانتے ہیں۔