کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ
عنبرپیٹ اور مشیرآباد اور حلقہ لوک سبھا سکندرآباد میں مقامی جماعت کے امیدواروں سے بی جے پی کی کامیابی کے امکانات کو تقویت: فیروز خاں
حیدرآباد۔/27 اپریل، ( پریس نوٹ ) حلقہ اسمبلی نامپلی کے تلگودیشم امیدوار محمد فیروز خاں نے مقامی جماعت کی تاریخ پر ایک طویل بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقامی جماعت اپنے حدود کو وسعت دینے کے بجائے صرف پرانا شہر حیدرآباد تک محدود رہنا چاہتی ہے۔ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے برخلاف اس مقامی جماعت کا کوئی انتخابی منشور نہیں ہوتا۔ وہ محض اپنے دوچار روایتی حلقوں میں مسلم رائے دہندوں کے ووٹوں پر مکمل انحصار کرتی ہے لیکن 60 سال سے اُس کو مسلسل ووٹ دینے والے مسلمانوں کے لئے آج تک کچھ نہیں کی ہے۔ جناب فیروز خاں نے 1998ء سے اب تک مختلف اسمبلی و لوک سبھا انتخابات کی تاریخ کا مدلل انداز میں جواب دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ مقامی جماعت نہ صرف اس پر قابض دو بھائیوں کے سواء اپنے کسی تیسرے لیڈر کو اُبھرنے نہیں دیتی بلکہ دیگر جماعتوں اور علاقوں میں بھی مسلم قیادت کو سبوتاج کیا کرتی ہے۔ عام طور پر یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ مقامی جماعت کی قیادت اکثر تلگودیشم، کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ زیادہ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہ دیا جائے۔ اگر دیا جائے تو وہ انھیں شکست دینے کیلئے اپنے امیدوار نامزد کریگی،
جس کی مثال گذشتہ انتخابات کے دوران حلقہ کدری میں دیکھی گئی جہاں مقامی جماعت نے محض ایک مسلم رکن اسمبلی جناب عبدالغفور کو دوبارہ کامیابی سے روکنے کیلئے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں غفور صاحب کو شکست ہوگئی تھی۔ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہ دینے کیلئے مقامی جماعت نہ صرف دوسری جماعتوں کو مجبور کرتی ہے بلکہ مسلمانوں کے نام پر قائم مقامی جماعت خود بھی مسلم امیدواروں کو زیادہ ٹکٹ دینا نہیں چاہتی جس کی مثال 2014ء کے لوک سبھا انتخابات ہیں۔ لوک سبھا کے چار حلقوں سے مقامی جماعت کے جو چار امیدوار مقابلہ کررہے ہیں ان میں اس کے تین غیر مسلم امیدوار ہیں وہ صدر ہی واحد مسلم امیدوار ہیں جو حلقہ حیدرآباد سے مقابلہ کررہے ہیں۔ اس نے سکندرآباد سے میئر ماجد حسین کو امیدوار بنانے کا اشارہ کرنے کے باوجود این رام موہن راؤ کو امیدوار بنایا گیا۔ دیواکر دھرانی کوٹہ ملکاجگیری سے اور جی موتی لال نائک بھونگیر سے مقابلہ کررہے ہیں۔ اسمبلی حلقوں کیلئے مقامی جماعت کے 34امیدواروں میں ایک تہائی غیر مسلم امیدوار ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حلقہ جات عنبرپیٹ اور مشیرآباد سے اس نے اپنے امیدوار نامزد کی ہے جہاں بی جے پی۔ کانگریس کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مقامی جماعت کے امیدواروں کے سبب ان حلقوں میں بی جے پی کو مدد مل سکتی ہے۔
اس کے برخلاف خیریت آباد اور صنعت نگر میں جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے مقامی جماعت نے کوئی امیدوار نہیں ٹھہرایا ہے جس سے شبہات پائے جاتے ہیں کہ اول الذکر دو حلقوں میں اس کی بالواسطہ مدد بی جے پی کی کامیابی کی ضامن بن سکتی ہے۔ آخرالذکر دو حلقوں میں اس کی راست یا بالواسطہ خفیہ مفاہمت ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اس قسم کی خفیہ ساز باز مقامی جماعت کو اکثر فائدہ پہنچاتی رہی ہے اور غالباً اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے اور مقامی جماعت خود کو تلنگانہ میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔ جناب محمد فیروز خاں نے کہا کہ مقامی جماعت ابتداء سے اس قسم کے اوچھے حربے اور سیاسی ہتھکنڈے اختیار کرتی رہی ہے۔ وہ اس مرتبہ 34اسمبلی حلقوں سے مقابلہ کررہی ہے۔ 1989ء میں 35حلقوں سے مقابلہ کرچکی ہے لیکن بعد میں اس کے امیدواروں کی تعداد پُراسرار طور پر گھٹتی گئی۔ یہ سب کچھ جب بھی سودا بازی کے تحت ہوا تھا آج بھی سودا بازی ہی ہورہی ہے۔ جس سے تنظیم کو وسعت دینے اس کی قیادت کے دعوے از خود جھوٹے ثابت ہوگئے اور یہ راز بے نقاب ہوگیا کہ وہ خفیہ سازباز کے تحت مختلف سیاسی جماعتوں یا مخصوص امیدواروں کی کامیابی یا شکست کے لئے کام کیا کرتی ہے۔
پالی ٹیکنک انٹرنس کیلئے آج ادخال درخواست کی آخری تاریخ
حیدرآباد 27 اپریل (سیاست نیوز) ایس ایس سی کا امتحان دیئے طلباء و طالبات کیلئے پالی ٹیکنک انٹرنس ’’پالی سیٹ‘‘ کے فارمس داخل کرنے کی آج 28 اپریل آخری تاریخ ہے اور انٹرنس امتحان 21 مئی کو مقرر ہے جو ایس ایس سی کے میاتھس 60 ، فزکس 30، کیمسٹری 30 نشانات پر ہوگا۔ اس کی کوچنگ معہ ماڈل پیپرس دفتر سیاست محبوب حسین جگر ہال روبرو رام کرشنا تھیٹر عابڈس پر اور سری چندرا جونیر کالج نزد سٹ ون موتی گلی چارمینار پر صبح 8 بجے تا 11 بجے ہورہی ہے۔ امیدوار رجوع ہوکر استفادہ کریں۔