حیدرآباد اردو کی محفوظ پناہ گاہ : ممتاز شاعر گلزار کا ادعا

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ترانہ کی اجرائی تقریب ، موسیقار و گلوکار وشال بھردواج اور سکھویندر سنگھ کی شرکت
حیدرآباد ۔ 7 نومبر ۔ ( سیاست نیوز) پاکستان جہاں اردو قومی زبان ہے کے مکیں حیدرآباد میں اردو کی محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے لگے ہیں ۔ چند برسوں قبل آنجہانی اداکار و ادب نواز سنیل دت نے حیدرآباد میں منعقدہ ایک مشاعرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اردو ہندوستان کی بیٹی ہے جوکہ پاکستان میں بیاہی گئی ہے لیکن اب پاکستان کے ادیب حیدرآباد کو اردو کی محفوظ پناہ گاہ تصور کررہے ہیں۔ حیدرآباد سے اردو کے تعلق اور حیدرآباد کو اردو کا گہوارہ قرار دینے والی کئی شخصیتیں گذرچکی ہیں لیکن آج ممتاز شاعر گلزار نے حیدرآباد کو اُردو کا محافظ شہر قرار دیا۔ پاکستان اب اردو کیلئے محفوظ سرزمین نہیں ہے بلکہ حیدرآباد میں اردو کی حفاظت کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں ۔ گلزار نے آج مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی میں ’ترانہ جامعہ‘ کی باضابطہ اجرائی اور مولانا آزاد تقاریب کی افتتاحی تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی ۔ انھوں نے اس موقع پر وائس چانسلر اردو یونیورسٹی پروفیسر محمد میاں کو پاکستان سے شائع ہونے والے ’ ماہ نو‘ کے دو خصوصی ضخیم شمارے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں رہنے والے اُن کے عزیز دوست سلطان راشد کے وہ احسان مند ہیں جنھوں نے ان نادر مخطوطات کی حفاظت کی ذمہ داری اُنھیں تفویض کی اور وہ ان خصوصی شماروں کو اردو یونیورسٹی کے حوالے کررہے ہیں تاکہ ان کی حقیقی حفاظت ہوسکے ۔ سلطان راشد نے انھیں یہ کہتے ہوئے ماہ نو کے یہ خصوصی شمارے حوالے کئے تھے کہ اسے اردو کی محفوظ پناہ گاہ میں پہونچایا جائے تب ہی انھوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ اردو یونیورسٹی کو یہ نایاب تحفہ حوالے کیا جائے ۔ گلزار نے اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ یونیورسٹی کے ترانہ کی تیاری میں اس سوچ کو رکھا گیا تھا کہ ترانہ آواز کا پرچم ہوتا ہے اور یہ جب سنایا جاتا ہے تو نہ صرف یونیورسٹی کے وقار کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ طلبہ کو اپنے دور طالب علمی کی یاد آجاتی ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے ترانے ایک ایسی چیز ہوتے ہیں جو زندگی بھر آپ کے ساتھ رہتے ہیں ۔ اس موقع پر گلزار نے مولانا ابوالکلام آزاد کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا ۔ اردو یونیورسٹی ترانہ کی موسیقی تیار کرنے والے معروف موسیقار و فلمساز وشال بھردواج کے علاوہ اس موقع پر مسٹر سکھویندر سنگھ گلوکار موجود تھے ۔ وشال بھردواج نے اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران کہا کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ترانہ کی موسیقی تیار کرتے ہوئے انھیں نئی راہ کا تعین ہوا ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اس ترانہ کی تیاری کے دوران موسیقی کا ایک مکمل سفر کرچکے ہیںتاکہ اس ترانہ کو تاریخی بنایا جاسکے ۔ سکھویندر سنگھ نے اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران کہا کہ اردو تہذیب کا حصہ ہے اور اس زبان کے بغیر گلوکاری بھی مکمل نہیں ہوسکتی چونکہ شاعری کے لئے اس سے بہتر کوئی زبان نہیں ہے ۔ سکھویندر سنگھ نے اپنے منفرد انداز میں معروف نغمہ ’’جئے ہو ‘‘ کے کچھ مکھڑے سنائے اور یونیورسٹی کا مکمل ترانہ سناتے ہوئے داد و تحسین حاصل کی۔ پروفیسر محمد میاں نے اپنے صدارتی خطاب کے دوران کہا کہ اردو کو عام بول چال کی زبان بناتے ہوئے ہر شخص تک پہونچانا انتہائی ضروری ہے۔ اسی لئے اردو یونیورسٹی نے اردو کی خوشبو کو دور تک پھیلانے کیلئے یہ اقدام کیا ہے ۔ اردو یونیورسٹی کی کارکردگی کو نمایاں اور بہتر بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ طلبہ یونیورسٹی کے معیار کے مطابق یونیورسٹی کو دوسروں کے سامنے پیش کریں۔ پروفیسر محمد میاں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ خود اعتمادی پیدا کریں اور اردو کے سفیر کے طورپر اردو کی خوشبو کو بکھیریں ۔ اس موقع پر گلزار نے یونیورسٹی کے میگزین کا رسم اجراء انجام دیا جس کی تیاری میں جناب میر ایوب علی خان اعزازی میڈیا کوآرڈنیٹر کا اہم کردار رہا ۔ ابتداء میں جناب خواجہ شاہد پرو وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے خیرمقدم کیا جبکہ آخر میں رجسٹرار یونیورسٹی پروفیسر ایس ایم رحمت اﷲ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جناب گلزار ، جناب وشال بھردواج ، جناب سکھویندر سنگھ کے علاوہ یونیورسٹی کا ترانہ تیار کرنے میں معاونت کرنے والے تمام افراد سے اظہارتشکر کیا۔ جناب عابد عبدالواسع نے نظامت کے فرائض انجام دیئے جبکہ تقریب کا آغاز قاری محمد اعظم کی قرأت کلام پاک سے ہوا ۔