مہلوکین میں نصف تعداد نوجوانوں کی ، احتیاط ہی حادثات سے بچنے کا واحد راستہ
حیدرآباد ۔ 3 ۔ اپریل : جڑواں شہر حیدرآباد و سکندرآباد میں ٹریفک حادثات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ سال 2014 کے آغاز سے اب تک 3 ماہ کے دوران ایک دو نہیں بلکہ 218 لوگ مارے گئے جن میں نصف تعداد نوجوانوں یعنی 17 تا 27 سال کے درمیان ہے ۔ حادثات میں اضافہ کی وجوہات جاننے کی کوشش پر کئی وجوہات سامنے آئیں ۔ ڈاکٹروں اور پولیس عہدیداروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر سڑک حادثات تیز رفتار ڈرائیونگ کا نتیجہ ہے ۔ کبھی کبھی ایک دن میں 6 تا 8 حادثات بھی ریکارڈ کئے گئے ۔ ایسے حادثات بھی پیش آئے جس میں ماں بیٹی ، ماں بیٹا ، باپ بیٹی ، باپ بیٹا اور میاں بیوی فوت ہوئے ۔ بعض حادثات میں شوہر کی جان گئی تو بیوی بچ گئی اور کسی واقعہ میں بیٹی ہلاک ہوئی تو ماں چل بسی ۔ شہر میں ٹریفک میں اضافہ کے باعث ہی حادثات کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ یہ حادثات دراصل ان کی تیز رفتاری کا نتیجہ ہے کہ سال 2010 میں صرف حیدرآباد میں جملہ 2797 حادثات پیش آئے تھے جن میں 473 لوگ مارے گئے ۔ اسی طرح 2011 میں پیش آئے جملہ 2651 حادثات میں 428 اموات ہوئیں ۔ سال 2012 میں پیش آئے 2576 واقعات میں 432 جانیں گئیں ۔ گذشتہ سال جملہ 2338 حادثات میں 426 افراد ہلاک ہوئے ۔ حادثات میں اضافہ کی ایک اور وجہ بدترین انفراسٹرکچر اور ناقص سڑکیں بتائی جارہی ہیں ۔ حادثات پر چھان بین سے یہ بات سامنے آئی کہ مضافاتی علاقوں میں واقع پیشہ وارانہ کالجس کے طلباء کی تعداد زیادہ رہی ۔ اس بارے میں بعض سرپرستوں نے جن کے بچے حادثات کا شکار ہوئے ہیں بڑے ہی افسوس کے ساتھ بتایا کہ وہ نوجوانوں کو یہی مشورہ دیں گے کہ کالجس کو موٹر گاڑیوں پر جانے کی بجائے کالجس کی بسوں کا استعمال کریں اس سے حادثات میں کمی ہوگی اور والدین کو سکون ہوگا ۔ ورنہ آج کل بچے کالج کو جاتے ہیں تو ماں باپ ان کی واپسی تک بے چین رہتے ہیں اور ان کی بحفاظت واپسی کے لیے بارگاہ رب العزت میں دعاکرتے رہتے ہیں ۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اکثر ماں باپ اپنے کمسن بچوں کو گاڑیاں دلاتے ہیں چونکہ یہ بچے گاڑیاں چلانے کے دوران بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اس لیے حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ تنگ سڑکوں اور گلیوں میں بھی کم عمر لڑکے خاص طور پر صبح کے اوقات اسکول جاتے ہیں ۔ گاڑی بہت تیز رفتار سے چلاتے ہیں ۔ اگر وہ کسی کو ٹکر دے دیں یا خود حادثہ کا شکار ہوجائیں تو اس سے سرپرستوں کو ہی بہت بڑا نقصان ہوگا ۔ حادثات سے بچنے کے لیے ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ’ احتیاط ‘ اور سب جانتے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے ۔۔