حیدرآباد میں گن کلچر! بندوق بردار حملوں میں خطرناک اضافہ

ایس ایم بلال
حیدرآباد ۔ 3 ڈسمبر ۔ حکومت تلنگانہ حیدرآباد کو ایک محفوظ اور اسمارٹ سٹی بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے لیکن شہر میں گن کلچر کے عام ہوجانے کے سبب یہ منصوبہ پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ۔ گزشتہ 15 دن کے وقفہ میں شہر میں بندوق کے استعمال یا فائرنگ سے متعلق تین وارداتیں پیش آئی ہیں۔ 20 نومبر کو گرے ہانڈس کانسٹیبل پی اوبلیش نے بنجارہ ہلز کے بی پارک کے قریب مشہور صنعتکار نتیانند ریڈی پر AK47 رائفل سے فائرنگ کردی تھی جبکہ 30 نومبر کو چارمینار کے علاقہ شکر کو ٹ میں اڈیشہ سے تعلق رکھنے والی تین رکنی ٹولی نے ریوالوار کی نوک پر نگینوں کے تاجر دنیش سونی کو لوٹ لیا تھا ۔ آج فائرنگ کے ذریعہ ڈر و خوف دلاکر دو نامعلوم رہزنوں نے ریلوے ملازم کو لوٹ لیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے حیدرآباد اور سائبرآباد پولیس کو عصری آلات سے لیس نئی پٹرولنگ گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں لیکن دن دھاڑے سنگین وارداتوں کا رونما ہونا تشویش کا باعث ہے ۔ مذکورہ تینوں واردات بھی عوامی علاقوں میں دن دھاڑے پیش آئی ہیں جبکہ پولیس شہر میں محاصرہ اور تلاشی مہم کے ذریعہ مجرمین کو خوفزدہ کرنے اور اُن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کا دعویٰ کررہی ہے ۔ پولیس شکر کوٹ علاقہ میں پیش آئے واقعہ میں کلیدی ملزم گوتم لنکا نے اڈیشہ سے دیسی ساختہ ریوالوار منتقل کیا تھا اور شہر کی ایک لاج میں قیام کرتے ہوئے نگینوں کے تاجر کو لوٹنے کا کامیاب منصوبہ تیار کیا ۔ سنٹرل کرائم اسٹیشن ٹاسک فورس اور دیگر پولیس عملہ جو ڈاکو اور لٹیروں کی سرکوبی کیلئے قائم کئے گئے ہیں لیکن تینوں وارداتیں اس بات کا ثبوت پیش کررہی ہیں کہ رہزنوں پر اب ان تنظیموں کا کوئی اثر نہیں رہا ۔ شہر میں گن کلچر کے فروغ کے سبب عام شہریوں کے جان و مال کو خطرہ لاحق ہے ۔ پولیس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے رہزنوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور خطرہ ہے کہ کہیں حیدرآباد ممبئی کی طرح انڈر ورلڈ مافیا کے اڈے میں تبدیل نہ ہوجائے۔