حیدرآباد میں کمسن لڑکیوں کی شادیاں شرمناک

سماجی جرم کی روک تھام میں مقامی سیاسی قیادت ناکام : محمد علی شبیر
حیدرآباد۔/30ستمبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ قانون ساز کونسل میں قائد اپوزیشن محمد علی شبیر نے حیدرآباد میں کمسن لڑکیوں کی شادی کے واقعات اور اس شرمناک سماجی جرم کی روک تھام میں مقامی سیاسی قیادت اور مذہبی رہنماؤں کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ کمسن لڑکیوں کی شادیوں کے ذریعہ جس طرح ان کی عصمتوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے اس پر خود کو مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرنے والے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد کی مسلم سیاسی جماعت کے قائدین کو قاضیوں کی حمایت میں پولیس اسٹیشن سے رجوع ہونے کی خبریں شائع ہوچکی ہیں۔ اس طرح مقامی سیاسی جماعت کی ان قاضیوں کو سرپرستی حاصل ہے جو اس طرح کے اسکام میں ملوث ہیں۔ گزشتہ دنوں حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ نے اسکام کے اصل سرغنہ قاضی کے پاس تقریب میں شرکت کی تھی جس کی تصویر انگریزی اخبارات و سوشیل میڈیا میں عام ہوچکی ہے۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے قاضیوں اور بروکرس کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے جس کے نتیجہ میں دن بہ دن اس طرح کی غیرشرعی اور انسانیت کو شرمسار کرنے والی حرکتیں عروج پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ مسلم مذہبی رہنماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کی سرگرمیوں پر روک لگانے کیلئے میدان میں آئیں۔ کمسن لڑکی کی شادی کو روکنے کیلئے عوام میں شعور بیدار کیا جائے اور اسلامی تعلیمات عام کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے بڑی تعداد میں قاضیوں، بروکرس اور غیر ملکی شہریوں کی گرفتاری کے باوجود بھی سیاسی اور مذہبی رہنما خواب غفلت کا شکار ہیں۔ انہیں چاہیئے تھا کہ وہ فوری میدان میں آتے اور سماج کے ان مجرمین کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے۔ پولیس کو ایسے عناصر کے خلاف مزید سخت کارروائی کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ غربت کا استحصال کرتے ہوئے غریب خاندانوں کی لڑکیوں کو شکار بنایا جارہا ہے۔ عرب ممالک سے آنے والے ضعیف العمر افراد اپنی جنسی ہوس کی تکمیل کیلئے حیدرآباد کو بدنام کررہے ہیں۔ محمد علی شبیر نے اس ریاکٹ میں قاضیوں کے ملوث ہونے کا ذکر کیا اور کہا کہ حکومت ایسے قاضیوں کے خلاف کارروائی میں ناکام ہوچکی ہے جو گزشتہ 20 برسوں سے اس طرح کی شرمناک سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمسن لڑکیوں کی شادی کے واقعات نے ملک بھر میں حیدرآباد کی نیک نامی متاثر کی ہے۔ اس کے علاوہ مخالف اسلام عناصر ،شریعت کو نشانہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ قاضیوں کے خلاف پی ڈی ایکٹ کا استعمال کرتے ہوئے جیل بھیج دیں۔ اس کے علاوہ ان کی جائیدادوں کو بھی ضبط کرلیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس اسکام کے اصل سرغنہ کے شہر میں کئی خانگی لاجس موجود ہیں جن میں غیر ملکی شہریوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ اگر مسلم قیادت چاہے وہ مذہبی ہو یا سیاسی بے حسی سے باہر نہ نکلیں گے تو اسلام اور مسلمانوں کی دنیا بھر میں بدنامی ہوتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ قیادتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ سماج میں برائیوں کے خاتمہ کی کوشش کریں۔