بیل گاڑی سے میٹرو ٹرین تک کا سفر ، جدید ٹکنالوجی سے ممکن
حیدرآباد ۔ 28 ۔ نومبر : ( سیاست نیوز ) : حیدرآباد میٹرو ریل کا افتتاح عمل میں آچکا ہے ۔ عالمی سطح پر جدید اور اڈوانسڈ ٹکنالوجی سے ملکی خصوصاً حیدرآبادیوں کو متعارف کرتے ہوئے فخریہ انداز میں شہریان حیدرآباد کے نام معنون کیا گیا ہے ۔ میٹرو کی آمد سے شہر میں ٹرانسپورٹ نظام ایک اور عظیم سنگ میل کو پالیا ہے ۔ ایک مرتبہ زمانے ماضی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں کے ذریعہ عوامی ٹرانسپورٹ نظام کی شروعات کرنے والے شہر حیدرآباد نے زمانے کی ترقی کے ساتھ جدید ٹرانسپورٹ نظام کو اپناتے ہوئے سائیکل رکشا ، بس ، آٹو رکشا ، ٹرین اور ایم ایم ٹی ایس ٹرین کا استقبال کرنے کے بعد اب میٹرو ریل نظام کا آغاز بڑے فخر کے ساتھ کیا ہے ۔ سرکاری ٹرانسپورٹ نظام کے ساتھ ساتھ خانگی ٹرانسپورٹ نظام جیسے سٹ ون ، کیابس ، آٹوز وغیرہ بھی شہری عوام کی ضروریات کی تکمیل کررہے ہیں ۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ ملکی سطح پر عوامی ٹرانسپورٹ نظام درست طور پر نہ ہونے کے حالات میں ہماری تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں ٹرین اور بسیں چلائی جاتی تھیں اور تاریخ کے اوراق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے عوامی ٹرانسپورٹ نظام کا آغاز بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں سے ہوا ہے اور اس زمانے میں بیل گاڑیوں کا استعمال غریب لوگ تو گھوڑا گاڑیوں ( بگیوں ) کا استعمال مالدار طبقہ کیا کرتا تھا علاوہ ازیں گھوڑا بگیوں کا استعمال سرکاری آفیسرس ، وزراء وغیرہ بھی کیا کرتے تھے ۔۔
نظام گیارنٹیڈ اسٹیٹ ریلوے
1950-1879 تک عوامی ٹرانسپورٹ نظام ، نظام گیارنٹیڈ اسٹیٹ ریلوے کے ذریعہ متحرک تھا اور اُس وقت تک ملک کے بڑے بڑے مقامات پر بھی عوامی ٹرانسپورٹ نظام کا وجود ہی نہیں تھا ۔ نظام نوابوں اور برٹش کمپنی کے درمیان کئے گئے معاہدے کے تحت یہاں ریلوے لائن بچھائی گئیں ۔ سکندرآباد اور واڑی کے درمیان ریلوے لائن بچھانے کا کام 1874 میں مکمل ہوگیا ۔ 8 اکتوبر 1874 کو پہلی پیاسنجر ریلوے جو تین بوگیوں پر مشتمل تھی 150 مسافرین کو لے کر نظام حکومت کے وسیع و عریض خطہ میں دوڑ لگائی اور اس دن سکندرآباد ریلوے اسٹیشن کا افتتاح عمل میں آیا جس کی وجہ سے ذاتی طور پر شروع کردہ ریلوے نظام ریلوے نے اپنا ریکارڈ بنایا اور 1884 میں مکمل طور پر نظام گیارنٹیڈ اسٹیٹ ریلوے کا وجود عمل میں آیا اور 1916 میں کاچی گوڑہ ریلوے اسٹیشن وجود میں آیا اور اس اسٹیشن کو نظام گیارنٹیڈ اسٹیٹ ریلوے کے مرکزی دفتر کے طور پر استعمال کیا گیا اور 1930 کے بعد مکمل طور پر ریاست حیدرآباد کا وجود عمل میں آیا اور 1951 میں یہ انڈین ریلوے کے قبضہ میں چلا گیا ۔۔
بسوں کی آمد
ریلوے نظام کے وجود میں آنے کے بعد نظام نوابوں نے عوامی ٹرانسپورٹ نظام کو آگے بڑھاتے ہوئے بسوں کا آغاز کیا ۔ 18 اپریل 1932 کو 27 بسوں کے ذریعہ نظام روڈ ٹرانسپورٹ کا آغاز کیا گیا ۔ 19 افراد کے بیٹھنے کے لیے اس میں سیٹیں فراہم کرتے ہوئے ان بسوں کو انگلینڈ کی کمپنی نے تیار کیا تھا اور بھی بسوں کی ضرورت تھی مگر ملکی آمدنی میں کمی کی وجہ سے 1945 میں پانی کے جہازوں کے ذریعہ 30 ڈبل ڈیکر بسیں درآمد کی گئیں اور ان بسوں کو حیدرآباد تا اطراف و اکناف کے قریوں تک چلایا جاتا تھا اور اس دور کی بسوں میں سے ایک بس دکن کوئین بس کو ابھی بھی آر ٹی سی کراس روڈ کے پاس آر ٹی سی بھون میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ بعد ازاں ریلوے اور روڈ ٹرانسپورٹ نظام کو ملاتے ہوئے مشترکہ ریل روڈ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ ریلوے اور بسوں کا آپس میں جوڑنا اسی وقت سے چلا آرہا ہے۔۔
ایم ایم ٹی ایس ٹرین کے ذریعہ شہریوں کو راحت
ساوتھ سنٹرل ریلوے اور ریاستی حکومت کے اشتراک سے ایم ایم ٹی ایس ٹرین ( ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ سسٹم کا آغاز 9 اگست 2003 کو عمل میں آیا ۔ جس کا افتتاح اس وقت کے نائب وزیراعظم یل کے اڈوانی نے انجام دیا تھا ۔ 44 کیلو میٹر پر محیط اس ریلوے پراجکٹ کے لیے 178 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے تھے اور ایم ایم ٹی ایس کے ذریعہ شہریان حیدرآباد کو بڑی حد تک راحت پہونچائی گئی ۔۔
ٹکنالوجی میں
’ کنگ ‘ میٹرو
میٹرو ریل کے افتتاح سے عوامی شہری ٹرانسپورٹ نظام نے ایک اور بڑے سنگ میل کو عبور کرلیا ہے اور میٹرو پراجکٹ عالمی سطح پر سب سے بڑا پبلک پرائیوٹ ٹرانسپورٹ نظام کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا مقام بنایا ہے ۔ ٹراولنگ وتھ شاپنگ کی جدید سوچ کے ذریعہ نئی یادگار کو قائم کیا ہے ۔۔