حیدرآباد میں جائیدادوں کی خرید و فروخت وبال جان

مقامی سیاسی قائدین کی محلہ ٹیکس وصولی ، حکومت کی چشم پوشی سے عوام کو پریشانی
حیدرآباد۔28اپریل (سیاست نیوز) شہر کے بیشتر علاقوں میں جائیداد کی خرید و فروخت شہریوں کے لیئے وبال جان بن چکی ہے۔ شریف ضرورتمند شہری اپنی جائیداد اپنی مرضی سے فروخت نہیں کرپا رہے ہیں بلکہ ایسا کرنے کی کوشش کرنے والوں کی جائیداد کو فروخت ہونے نہیں دیا جا رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں شہر کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ اپنی مرضی کے مطابق جائیداد خریدنے کے نام سے بھی خوفزدہ ہونے لگے ہیں چونکہ ان علاقوں میں لی گئی جائیداد کا رجسٹریشن تو سب رجسٹرار کے دفتر میں ہوتا ہے لیکن اسٹامپ ڈیوٹی ادا کرچکے مالک جائیداد کو مقامی سیاسی لیڈر کو محلہ ٹیکس بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ شہر کے نواحی علاقوں میں بڑی اور قیمتی جائیدادیں خریدنے والوں کو سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کی جانب سے دی جانے والی تکالیف حد سے تجاوز کرتی جا رہی ہیں اور ان حرکتوں پر سربراہان سیاسی جمات کی جانب سے روک نہیں لگائی گئی تو عوام میں بغاوت پیدا ہو جائے گی اور عوام ہر گلی کوچے میں ان سیاسی کارکنوں کو عوامی طاقت کا احساس دلوا دیں گے اور ان سیا سی کارکنوں کے آقا بھی عوامی برہمی کا شکار ہوں گے۔ حالیہ عرصہ میں موصولہ ایک شکایت میں شہر کے مضافاتی علاقہ میں جائیداد خریدنے والے نے بتایا کے محکمہ مال کے دفاتر در اصل رشوت کی آماجگاہ ہے جہاں ابتداء میں کام کے لیئے پیسے وصول کیئے جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ خریدار کو خوفزدہ کرتے ہوئے دولت بٹورنے لگتے ہیں۔ خریدار نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا جب انہوں نے جائیداد کی خریدی کیلئے بیعانہ ادا کیا اس کے فوری بعد علاقہ سے تعلق رکھنے والے چندافراد ان سے رجوع ہوئے اور کہا کہ وہ اس علاقہ کے لیڈر ہیں اور علاقہ کی ترقی کی ذمہ داری ان کی پارٹی نے انہیں تفویض کر رکھی ہے تو خریدار نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چلو نئے تعلقات بھی بننے لگے ہیں لیکن  ان کی یہ خوشی چند لمحوں میں کافور ہو گئی جب نام نہاد لیڈروں نے کہا کہ جب اس علاقہ میں آپ نے زائد از ایک کروڑ کی جائیداد خریدی ہے تو آپ کو چاہیئے کہ علاقہ کی ترقی میں بھی دست تعاون دراز کریں۔ موصوف نے جب دریافت کیا کہ اب کونسا ترقیاتی کا م شروع ہونے جا رہا جس میں تعاون درکار ہے تو لیڈر نے دھڑلے سے کہا کہ اس گلی میں سڑک میں نے ڈلوائی ہے۔ اسی طرح کے واقعات شہر کے کئی علاقوں میں بلخصوص ترقی پذیر علاقوں میں تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ عوام کو ہراساں کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر جبری وصولی کرنے والوں میں قومی ‘ ریاستی ‘ علاقائی و مقامی تمام سیاسی جماعتوں کے کارندے ملوث ہیں۔ ان سیاسی کارندوں کو روکنے کا بہترین طریقہ کار ان سے خوفزدہ ہوئے بغیر ان واقعات و ہراسانیوں کو منظر عام پر لانا شروع کردیں تاکہ ان سیاسی کارکنوں کو شرم آئے جو بغیر کسی کاروبار کے ان ہی سرگرمیوں کے ذریعہ دولت کما رہے ہیں اور اپنے گھر چلا رہے ہیں۔ شہر کے بعض علاقوں میں ان سیاسی دلالوں نے تو خریدنے اور بیچنے والوں سے وصولی کیلئے کمیشن فکس کر رکھا ہے اور علاقہ میں کسی بھی معاملت کی صورت میں حصہ پہنچادینے کا انتباہ بھی دیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں موجود سنجیدہ قائدین و کارکنوں کا کہنا ہے کہ دراصل عوام کی جانب سے اس طرح کے عناصر کو بلا چوں و چرا رقومات دیئے جانے کے سبب ان عناصر کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اگر عوام اپنے ووٹ کے ساتھ اتحاد کی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں ان عناصر کو سلاخوں کے پیچھے پہنچایا جا سکتا ہے۔