مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
مسلمان حیا والا ہوتا ہے، اسی لئے فرمایا گیا کہ ’’حیا ایمان کا شعبہ ہے‘‘ اور ایک جگہ فرمایا کہ ’’جب تجھ سے حیا رخصت ہوگی تو پھر جو چاہے کرتا پھر‘‘۔ یقیناً حیا ایک نعمت ہے، جو اللہ تعالی نے عورت کے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے، اسی وجہ سے عورت حیادار ہوتی ہے اور جس عورت سے حیا چلی گئی، یوں سمجھئے کہ اللہ تعالی کی نعمت اس سے چھن گئی۔ پھر نہ اس کے لئے دنیا میں عزت ہے اور نہ آخرت میں، لہذا نگاہوں کو پاک رکھنا، اپنے دلوں کو صاف رکھنا اور اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا عورت کے فرائض میں سب سے بڑا فریضہ ہے۔ اپنے ناموس کو بچانا عورت کی ذمہ داری ہے، جس کی شریعت مطہرہ میں بار بار تاکید کی گئی ہے۔ عورت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ مخلوط محفلوں سے اجتناب کرے، کیونکہ عورت فقط ان مردوں کے سامنے آسکتی ہے، جو محرم کہلاتے ہیں،
جہاں حیا کا رشتہ ہوتا ہے، جہاں ہوسناکیاں ختم ہو جاتی ہیں، اُلفتیں اور محبتیں سچی ہوتی ہیں، جیسے باپ کا رشتہ، بھائی کا رشتہ، بیٹے کا رشتہ، یہ سب محرم رشتے ہیں۔ اس سے اگر ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی تو نگاہوں میں حرص و ہوس کے سوا کچھ نہ ملے گا، اسی لئے شریعت نے نامحرموں کے سامنے پردے کا حکم دیا ہے، حتیٰ کہ جو غیر محرم گھروں میں رہتے ہیں، ان سے بھی بچنے کا حکم ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’دیور موت ہے‘‘۔ یہ ایک ایسا غیر محرم ہے، جو عورت کے قریب ہوتا ہے، لہذا عورت کے لئے ایسے غیر محرم سے خود کو بچانا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ غیر محرم سے حتی الوسع بات چیت نہ کی جائے، لہذا عورتیں یہ اصول بنالیں کہ انھیں کسی غیر مرد سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ خواتین یہ عزم کرلیں کہ نہ کسی غیر محرم کو دیکھنا ہے اور نہ اپنا جسم دیکھنے کا موقع دینا ہے، کیونکہ جب بات چیت کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہیں سے شیطان کا عمل دخل شروع ہو جاتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ جب بھی غیر محرم ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں تو شیطان ان دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی طرف رغبت اور مَیلان پیدا کرتا ہے، یعنی شیطان کو درمیان میں عمل دخل کا موقع مل جاتا ہے، لہذا ہمیشہ ایسے مواقع سے گریز کرنا چاہئے۔ ٹیلیفون پر بات کرنی پڑے یا آمنے سامنے بات کرنی پڑے، ایسا موقع ہی نہیں آنا چاہئے۔ ایسے مواقع پر جس نے خود کو بچالیا، اس نے اپنی عزت کو بچالیا۔ آج کل ایک نئی مصیبت یہ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ بچیاں اپنے ماں باپ کی اجازت سے اپنے پاس سیل فون رکھتی ہیں، یعنی ۹۰فیصد سے زائد جوان بچیوں کے پاس سیل فون دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سیل فون پر ان کے کزنوں اور کلاس فیلوز کی کالیں آتی ہیں، لہذا اس کو سیل فون نہیں بلکہ Hill Phone کہنا چاہئے۔ یعنی جہنم کا فون بچی کے ہاتھ میں ہے اور اس کو جہنم سے کالیں آرہی ہیں کہ تم جلدی سے میرے پاس آؤ، میں تمہارے لئے تیار بیٹھی ہوں۔ واضح رہے کہ عورت کی سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ غیر محرم کو بات چیت کا موقع دیتی ہے، جب کہ شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر کبھی بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو عورت کو چاہئے کہ وہ اپنی آواز میں نرمی کی بجائے سختی پیدا کرے۔ یہاں سختی سے مراد بدتمیزی نہیں ہے، بلکہ سختی سے مراد یہ ہے کہ جو بات ضروری ہے وہ کرلے اور غیر ضروری بات کا موقع نہ فراہم کرے۔ یعنی جب عورت روکھے پن سے بات کرے گی تو مرد کو کبھی جرأت نہیں ہوگی کہ وہ ایک بات سے دوسری بات کرسکے۔ یہ شیطان کا بہت بڑا پھندا ہے کہ جب آپ کسی سے بات کرنے پر آمادہ ہوں گی تو اگلے کام سب آسان ہو جائیں گے۔ اگر آپ نے فون پر کسی کو بات کرنے کی اجازت دے دی تو اگلا قدم ملاقات کا ہوگا اور جب ملاقات ہوتی ہے تو پھر سارے حجابات ختم ہو جاتے ہیں اور پھر احساس اس وقت ہوتا ہے، جب گناہ ہو چکا ہوتا ہے، لہذا ایسے معاملات کو ابتدا ہی میں روک دینا چاہئے۔
اگر کسی غیر مرد کو کسی عورت نے اپنے قریب آنے کا موقع دیا تو وہ مرد اس طرح کے بہانے بناتا ہے کہ ’’میں شادی کرنا چاہتا ہوں، میں تمھیں اپنانا چاہتا ہوں‘‘ لیکن یہ ساری باتیں بکواس ہیں۔ ایسا کہنا گناہ کے مواقع تلاش کرنے کا بہانہ ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر میں نے راست یہ بات کہہ دی کہ ’’میں تمہاری عزت خراب کرنا چاہتا ہوں‘‘ تو کوئی خاتون میری طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھے گی۔ اسی طرح اگر کوئی مرد کسی خاتون کی تعریف کر رہا ہے تو وہ تعریفوں کے ذریعہ اس کو اپنے سے مانوس کرنا چاہتا ہے، اس کے دل میں اس خاتون کی تعریف نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف اپنے مقصد کا طلبگار ہوتا ہے۔ لہذا ہر لڑکی اور خاتون کو چاہئے کہ وہ ایسی باتوں پر اعتماد نہ کریں، کیونکہ ایسی باتیں سو فیصد جھوٹ ہوتی ہیں۔ جب یہ پتہ چل جائے کہ ایسا راستہ ایمان اور عزت کے لئے خطرہ ہے تو پھر ایسے راستے پر قدم ہی کیوں رکھا جائے۔ اسی لئے شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ عورت اپنی عزت و ناموس کی خود حفاظت کرے، کسی کی چکنی چُپڑی باتوں میں نہ آئے، کیونکہ یہ عورت کا سب سے بڑا فرض منصبی ہے۔
خواتین کے لئے حکم ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلیں تو پردے میں نکلیں اور پردہ بھی ایسا نہ ہو کہ دوسرے اُس کو دیکھتے ہی رہ جائیں۔ آج کل کی نوجوان بچیاں برقعہ بھی استعمال کرتی ہیں تو ایسا کڑھائی والا خوبصورت برقعہ کہ جس پر نظر پڑتے ہی انسان کچھ نہ کچھ سوچنے لگتا ہے، جب کہ پردہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسا برقعہ پہنیں کہ جس کی طرف دیکھنے کے لئے کسی کی طبیعت مائل نہ ہو۔ اسلام نے اس قسم کی آرائش سے منع کیا ہے، جس کی طرف کسی غیر مرد کی نظر راغب ہو۔ جوان بچیاں جب گھر سے باہر نکلیں تو سادہ برقعہ پہن کر نکلیں، تاکہ ان کی طرف کسی کی نظر نہ اُٹھے۔ اسی لئے شریعت کا حکم ہے کہ جب عورت گھر سے نکلے تو پردہ کرے اور ایسی خوشبو نہ لگائے، جو قریب سے گزرنے والے مردوں کو محسوس ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جو عورت خوشبو لگاکر مردوں کے پاس سے گزرے، وہ ایسی ویسی ہے‘‘۔ ایسی ویسی کا مطلب محدثین نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ کردار کی کمزور ہے، اس کی نیت میں فتور ہے، تب ہی تو اس نے اس قسم کی خوشبو کا استعمال کیا ہے۔ (اقتباس)