بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
حکومت کی اپوزیشن پر تنقیدیں
ملک میں ساڑھے چار سال قبل جس وقت سے نریندر مودی حکومت اقتدار پر آئی ہے حکومت کے کام کاج میں ایک چیز واضح دکھائی دیتی ہے ۔ یہ ایک نئی روایت دکھائی دے رہی ہے اور یہ روایت ہے اپوزیشن پر تنقید کرنے کی ۔ جب ملک میں کوئی حکومت قائم ہوتی ہے تو ابتدائی ایام میں وہ سابقہ حکومت کی کارکردگی اور ملک کے حقیقی حالات کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہے اور پھر اس کے مطابق اگر کہیں کوئی خامیاں رہ گئی ہوں اور کوئی ناکامیاں ہوئی ہوں تو موجودہ حکومت اپنے منصوبوںاور پالیسیوں اور حکمت عملی کے ذریعہ حالات میںتبدیلی لانے کی کوشش کرتی ہے ۔ جو خامیاں رہ گئی تھیں انہیں دور کیا جاتا ہے ۔ جو ناکامیاں ہاتھ آئی تھیں انہیں کامیابیوں سے بدلنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔ ملک اور قوم کو درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ نئے چیلنجس سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔ ایسی پالیسیاں تیار کی جاتی ہیں جن کے نتیجہ میں نہ صرف ملک میں داخلی حالات بہتر ہوسکیں بلکہ یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی شبیہہ میں مثبت تبدیلی آئے ۔ جو مقام عالمی سطح پر اور بین الاقوامی فورمس میں ملک نہیں مل سکا ہے ملک کو وہ مقام دلانے پر توجہ دی جاتی ہے ۔ حکومت کے الگ الگ شعبہ اور محکمے اپنی اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل میں جٹ جاتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی حکومت نے ان سب کاموں کو کہیں پس پشت ڈال دیا ہے اور وہ گذشتہ ساڑھے چار سال سے صرف اپوزیشن کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے کے عمل ہی مصروف ہیں۔ وہ گذشتہ سات دہوں سے ملک کی ابتر حالت کی دہائی دیتے جا رہے ہیں جبکہ ملک کے سارے عوام اور ساری دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان نے گذشتہ سات دہوں میں کافی کچھ ترقی کی ہے ۔ ملک کی شبیہہ میں بین الاقوامی سطح پر زبردست تبدیلی آئی ہے ۔ آج دنیا ہندوستان کی جانب توقعات اور امیدوں کے ساتھ دیکھ رہی ہے ۔ یہ سب کچھ صرف بی جے پی کے ساڑھے چار سال کے دور حکومت میں نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا ہونا ممکن ہے ۔ ہندوستان نے بتدریج ترقی کرتے ہوئے آج دنیا بھر میں اپنا مقام حاصل کیا ہے ۔
ہم گذشتہ ساڑھے چار سال کی حالت پر نظر ڈالیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ مودی حکومت اور اس کے وزرا نے بھی اس سارے وقت میں خاص طور پر کانگریس اور سابقہ حکومتوں کو ہی تنقیدوں کا نشانہ بنایا ہے ۔ کسی بھی محاذ پر اپنی کارکردگی پیشکرنے پر توجہ نہیں دی گئی اور صرف اپوزیشن اور سابقہ حکومتوں کو تختہ مشق بناتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں ایک طرح کی الجھن پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھنے کے امکانات کو ختم کرنے کیلئے ہر طریقہ اختیار کیا گیا ۔ کبھی سابقہ اسکامس کو نظیر بناکر پیش کیا گیا تو کبھی کسی وزیر یا عہدیدار کی بدعنوانی کو اپنے لئے ڈھال بناکر پیش کیا گیا ۔ جس طرح سے حکومت نے ملک کے حالات کو عوام کے ذہن سے محو کرنے کا طریقہ اختیار کیا ہے وہ حکومتوں کیلئے ذیب نہیں دیتا ۔ حکومت کو ملک کے حالات کا اعتراف کرنا چاہئے ۔ اب تک اس نے جو کچھ بھی کام انجام دئے ہیں‘ جو پروگرامس تیار کئے ہیں ان سب کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے ۔ ان کاموں میں ہوئی پیشرفت کو اجاگر کرنا پڑتا ہے ۔ آئندہ کے منصوبوںکی تیاری کرنی ہوتی ہے ۔ خود اپنی حکومت میں جو کام ادھورے رہ گئے ہیں انہیں پایہ تکمیل تک پہونچانے کی حکمت عملی بنانی پڑتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت یہ سب کچھ نظر انداز کر رہی ہے ۔
خود وزیر اعظم نریندر مودی ہوں یا پھر حکومت کے دوسرے وزرا یا پھر برسر اقتدار پارٹی کے ترجمان ہوں سبھی نے ایک نئی روایت کو فروغ دیا یہ اور وہ روایت اپوزیشن کو نشانہ بنانے اور انہیں تختہ مشق بناتے ہوئے عوام کے ذہنوں میںپیدا ہونے والے سوالات کو محو کرنا ہے ۔ یہ سب کچھ جمہوری عمل کا حصہ نہیںہوسکتا بلکہ یہ ایک منفی رجحان ہے جس سے جمہوریت اور اس کی اقدار کی نفی ہوتی ہے ۔ حکومت اس خام خیالی میں نہ رہے کہ اس کی یہ حکمت عملی کامیاب ہوسکتی ہے اور اسے کسی سوال کا جواب دینا نہیں پڑے گا ۔ سوشیل میڈیا کے اس دور میں عوام تمام حالات سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہ حکومت کی ناکامیوں پر گہری نظر بھی رکھے ہوئے ہیں جس کی مثال حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج ہیں۔ اگر مودی حکومت موجودہ طرز پر ہی کام کرتی رہی تو عجب نہیں کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج بھی اس کیلئے منفی رہیں۔