!حکومت کا سچ یہی ہے

منصف سے کہو وقت کی میزان اُٹھالے
صدیوں کا ستایا ہوا لب کھول رہا ہے
!حکومت کا سچ یہی ہے
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہر روز ایک نئے ریکارڈ کو توڑ رہا ہے ۔ مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت کو اس مہنگائی کی آگ بہت مہنگی پڑے گی ۔ مودی کے حامی اور انتخابی مہم کے مددگار رام دیو نے بھی مودی کو انتباہ دیا ہے کہ اس مہنگائی نے عوام کو حکومت کے خلاف صف بندی کا موقع دیا ہے ۔ کانگریس نے پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں کو بے قابو بنانے کے لیے مودی حکومت کو ہی ذمہ دار ٹہرایا ہے ۔ رام دیو نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں مودی کو سخت ناراضگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس لیے وہ آئندہ 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے لیے انتخابی مہم نہیں چلائیں گے ۔ قیمتوں میں اضافہ کے مسئلہ پر سیاست کرنے والی پارٹیوں نے ہمیشہ اس مسئلہ کو عالمی صورتحال سے جوڑ دیا ہے اور مالیاتی بحران کو تشویشناک بتایا ہے ۔ یہ پارٹیاں اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ لیتے ہوئے عوام کو مشکلات سے دوچار کررہی ہیں ۔ کانگریس کے بھارت بند کا بھی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ آج ممبئی میں پٹرول کی قیمت 92 روپئے ہوچکی ہے ۔ آئندہ 100 روپئے ہوجائے گی ۔ عوام کے بنیادی حقوق کو چھین لینے کا کسی بھی حکومت کو حق حاصل نہیں ہوتا لیکن مودی حکومت عوام کی زندگی جینے کے حق کو دن بہ دن مہنگائی کے بوجھ کے ذریعہ سلب کرتے جارہی ہے ۔ یہ ایک ایسی بھیانک صورتحال ہے جو 2008 کے مالیاتی بحران سے زیادہ نازک رخ اختیار کرے گی ۔ مرکزی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اکسائز ڈیوٹیز میں کمی کرے ۔ سال 2014 اور 2016 کے درمیان پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں سے مرکز کو خاطر خواہ مالیہ حاصل ہوا تھا جس سے حکومت کو ملک بھر میں انفراسٹرکچر پر خرچ کرنے کا موقع ملا لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومت اکسائز ڈیوٹی کم کرنے کے لیے مجبور ہوجائے گی تو ترقیاتی کام انجام دینے کے لیے اس کے پاس فنڈ نہیں ہوں گے ۔ مالیہ کی کمی کے بہانے حکومت مزید سخت اقدامات کرنے کے لیے مجبور ہوجائے تو اس کا راست اثر غریب عوام پر پڑے گا ۔ اس وقت ملک میں پٹرول سربراہ کرنے والی سب سے بڑی کمپنی انڈین آئیل کارپوریشن کی جانب سے فی لیٹر 39.21 روپئے قیمت لی جاتی ہے ۔ جس میں ویاٹ شامل نہیں ہوتا ۔ ڈیلرس کو فراہم ہونے والا پٹرولیم پر اکسائز ڈیوٹی بھی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود عوام کو پٹرول پر فی لیٹر تقریبا 90 روپئے ادا کرنے پڑ رہے ہیں تو یہ کہیں نہ کہیں دھاندلی ہورہی ہے ۔ ریاستی حکومتوں کی جانب سے پٹرولیم اشیاء پر ویاٹ لگایا جارہا ہے ۔ مہاراشٹرا نے پٹرول اور ڈیزل پر علی الترتیب 39.12 اور 24.78 فیصد ویاٹ نافذ کیا ہے اس لیے ممبئی میں پٹرول کی قیمت 92 روپئے ہوگئی ہے ۔ عوام کی جانب سے پٹرول پر جو ٹیکس ادا کیا جاتا ہے وہ پٹرول کی ریٹیل قیمت سے دو گنا سے ہندوستان کے پڑوسی ممالک میں پٹرول کی قیمتیں بہت کم ہیں ۔ پاکستان میں فی لیٹر 57.83 روپئے ، سری لنکا میں 64.12 روپئے ، نیپال میں 68.30 روپئے اور بنگلہ دیش میں 73.06 روپئے ہے ۔ ان تمام حقائق کے باوجود مودی حکومت نے ان اشیاء کی قیمتوں میں کمی سے انکار کردی ہے ۔ اگر حکومت ایسے نازک وقت میں ہی اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کرے تو پھر یہ مسئلہ ہندوستانی معیشت کو شدید دھکہ پہونچا سکتا ہے ۔ سال 2019 کے عام انتخابات میں 300 نشستیں حاصل کرنے کا نشانہ مقرر کرنے والی مودی حکومت انتخابات کے موقع پر عوامی ناراضگی کا شکار ہوجائے تو اس کے لیے یہ لمحہ پشیمانی کا باعث ہوگا ۔ اس حقیقت کے باوجود مودی حکومت ہنوز اس خوش فہمی میں ہے کہ وہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی ۔ حکومت نے قومی مفاد میں جو فیصلے کئے ہیں اس کا احترام کرتے ہوئے مودی حکومت کی بھر پور حمایت کریں گے ۔ یہاں عوام کا مزاج اگر کبھی نہیں سدھریں گے کی چار دیوار سے باہر نہیں نکلے گا تو پھر انہوں نے حکومت سے جو اچھی امیدیں وابستہ کی تھیں وہ دم توڑ دیں گی ۔ اگر عوام کرپٹ سیاستداں ، بیوروکریٹس اور مفاد پرست حکمراں ٹولے کا شکار ہوتی ہے تو پھر انہیں مایوسی کے غار میں ڈھکیلیں گے اور اب یہی ہوتا نظر آرہا ہے ۔ زعفرانی سیاستدانوں نے اپنے سیاہ دھبوں کے ساتھ عوام کی جیب ہلکی کرتے جائیں گے تو پھر اچھے دن اور تبدیلی کا خواب خود عوام کے ہاتھوں چکنا چور ہوجائے گا ۔ عوام پھر ایک بار تاریخی غلطی کو دہرائیں گے تو انہیں آج کے حالات سے زیادہ زہریلی تضحیک و تذلیل والے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔۔