یہ دستور زباں بندی ہے کیا تری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
حکومت پر تنقیدیں ناقابل قبول ؟
ٹاملناڈو میں آئی آئی ٹی مدراس کی جانب سے طلبا کے ایک گروپ پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس نے مبینہ طور پر اپنے پمفلٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی تھی ۔ یہ کارروائی بھی صرف ایک نامعلوم مکتوب کی بنیاد پر کی گئی جو مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل نے آئی آئی ٹی کیمپس سے رجوع کردی تھی ۔ مدراس آئی آئی ٹی میں امبیڈکر پیریار اسٹڈی سرکل نامی گروپ نے یہ پمفلٹ شائع کروایا تھا جس میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اس گروپ کی جانب سے مباحثہ کا اہتمام کیا جا رہا تھا تاکہ حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں پر اظہار خیال کیا جاسکے ۔ تاہم اس سلسلہ میں تیار کردہ ایک پمفلٹ وزارت فروغ انسانی وسائل کو نامعلوم مکتوب کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا اور وزارت فروغ انسانی وسائل نے اس پر معلوم فراہم کرنے کیمپس کو ہدایت دی تھی ۔ کیمپس نے کارروائی کرتے ہوئے اس گروپ پر ہی امتناع عائد کردیا ۔ یہ ساری کارروائی محض اس لئے کی گئی کیونکہ اس گروپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اور ان کی پالیسیوں کوتنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ گروپ نے اپنے پمفلٹ میں الزام عائد کیا تھا کہ مودی حکومت اپنا ہندوتوا ایجنڈہ آگے بڑھانے میں مصروف ہے اور ساتھ ہی وہ ہندوستان کو لوٹنے کی ملٹی نیشنل کارپوریٹس کو کھلی چھوٹ دے رہی ہے ۔ اس گروپ نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے میں مصروف ہے اور اس کیلئے گاؤ کشی پر امتناع عائد کیا جا رہا ہے اور گھر واپسی جیسے پروگرامس منعقد کئے جا رہے ہیں۔ اس پمفلٹ میں دراوڑی یونیورسٹی کے ماہر تعلیم آر ویویکانندا کی تقریر کے اقتباسات ہیں جس میں انہوں نے حکومت کو موافق کارپوریٹ قرار دیا اور اس سلسلہ میں حصول اراضیات بل ‘ انشورنس اور لیبر شعبہ کی اصلاحات کا بھی تذکرہ کیا تھا ۔ انہوں نے حکومت پر گاؤ کشی اور گھرواپسی پروگرامس کے ذریعہ عوام کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کا بھی الزام عائد کیا تھا ۔ آئی آئی ٹی مدراس نے اپنے اس اقدام کی مدافعت بھی کی ہے اور طلبا گروپ کو مباحث یا مذاکرہ منعقد کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا ہے حالانکہ مختلف گوشوں کی جانب سے اس کی مذمت کی جا رہی ہے ۔
آئی آئی ٹی چینائی کا یہ اقدام انتہائی منفی سوچ کا نتیجہ ہے کیونکہ کسی بھی گروپ کو حکومت کی پالیسیوں یا پروگراموں سے اتفاق یا اختلاف کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے ۔ یقینی طور پر ملک بھر میں گاؤ کشی پر امتناع اور گھر واپسی جیسے پروگراموں پر مختلف گوشوں سے تنقیدیں کی جا رہی ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ اقلیتوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ان میں احساس کمتری پیدا کیا جا رہا ہے اور انہیں مرعوب کرنے کی سازشیں رچی جا رہی ہیں۔ خود حکومت کی جانب سے مختلف گوشوں کی ان سرگرمیوں پر زبانی تنقید بھی کی گئی ہے ۔ اگر کوئی طلبا تنظیم حکومت کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتی اور ان پر مباحث کرواتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنا چاہتی ہے تو اس کے خلاف کارروائی مناسب نہیں کہی جاسکتی ۔ اب تعلیمی شعبہ میں بھی اس طرح کے اقدامات اگر کئے جائیں تو مستقبل کے ذہنوں کو تعصب اور فرقہ پرستی سے پاک رکھنا مشکل ہوجائیگا ۔ یہ الزامات ویسے بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ نریندر مودی حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی تعلیم کے شعبہ کو بھی زعفرانی طرز فکر میں ڈھالنے کے اقدامات کا آغاز ہوچکا ہے ۔ ایسے میں اگر طلبا کے گروپس کو بھی مباحث یا تبادلہ خیال سے روک دیا جاتا ہے تو اس کی ہر گوشہ کی جانب سے مذمت ہونی چاہئے ۔ حکومت پر تنقیدیں ہوتی رہتی ہیں اور جہاں تک حکومت کی سنجیدگی کا سوال ہے اسے تنقیدوں سے گھبرانے کی بجائے ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
اگر اس طرح سے مخالفانہ آوازوں کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کی جائیگی تو اس سے جمہوری فکر رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ حکومت پر تنقیدیں بھی جمہوری عمل کا حصہ ہے اور اگر مخالف آوازوں کو اس انداز سے دبانے کی کوششیں کی جائیں تو یہ ناقابل قبول ہونگی ۔ کل ہی این ایس یو آئی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے ادعا کیا تھا کہ آر ایس ایس ملک میں مباحث اور مذاکرات کے عمل کو ختم کرنا چاہتی ہے اور ڈسیپلن شکنی کے نام پر انفرادیت کا خاتمہ اس کا نصب العین ہے ۔ دوسرے ہی دن اگر آئی آئی ٹی مدراس جیسے کسی بڑے تعلیمی ادارے میں طلبا کے گروپ کو مباحث یا مذاکرات سے روک دیا جاتا ہے تو اس سے الزام کی سچائی ظاہر ہونے لگتی ہے ۔ صحیح سوچ و فکر رکھنے اور جمہوری عمل میں یقین رکھنے والی تنظیموں اور گوشوں کو آئی آئی ٹی مدراس کے اقدام کی مذمت کرنی چاہئے ۔