حکومت پر بی جے پی قائدین کی تنقیدیں

اٹھ گئے ہم جو اس کی محفل سے
رنگ رخ کا بدل گیا ہوگا
حکومت پر بی جے پی قائدین کی تنقیدیں
گذشتہ کچھ ہفتوں سے مرکز کی نریند رمودی حکومت کیلئے ایک مختلف صورتحال پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے ۔ گذشتہ ساڑھے تین سال سے جس حکومت کی ہر گوشے سے واہ واہی ہو رہی تھی اور حد تو یہ تھی کہ خود اس کے مخالفین کے بعض گوشے حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کو اپنی مجبوری سمجھ رہے تھے اب اسی حکومت پر اپوزیشن سے ہی نہیں بلکہ ان گوشوں سے بھی تنقیدیں شروع ہوگئی ہیں جن کی امید نہیں کی جا رہی تھی ۔ اب خود بی جے پی کے داخلی حلقوں میں بی جے پی کے کچھ قائدین کی جانب سے تنقیدیں شروع ہوگئی ہیں۔ بہت پہلے سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے نریندر مودی حکومت کو تنقید کانشانہ بنایا تھا ۔ اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر رہ چکے ارون شوری کے علاوہ ان کے ایک اور کابینی ساتھی معروف قانون داں رام جیٹھ ملانی نے بھی نریندر مودی کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی اور حالیہ عرصہ میں یشونت سنہا نے بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ جہاں تک ارون شوری اور یشونت سنہا کی تنقیدوں کا سوال ہے یہ اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ یہ دونوں تجربہ کار وزرا رہ چکے ہیں۔ یہ دونوں زمینی حقائق سے واقفیت رکھتے ہیں اور یشونت سنہا کے فرزند جئینت سنہا تو نریندرمودی حکومت کے وزیر بھی ہیں۔ جو بات نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد سے ملک کی اپوزیشن جماعتیں کہتی آ رہی تھیں اب وہی باتیں بی جے پی قائدین اور سابق وزرا بھی کرنے لگے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس کی شائد بی جے پی نے کبھی امید نہیں کی تھی ۔ خاص طور پر اس حال میں جبکہ بی جے پی کو کئی ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ بی جے پی نے خاص طور پر اترپردیش میں سب سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس کے بعد سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ اپوزیشن کے حوصلے بھی پست ہوگئے ہیں لیکن اس کے برخلاف خود بی جے پی کے اندرونی حلقوں سے حکومت پر تنقیدوں کا آغاز ہوگیا ہے ۔ بات یہیں تک نہیں ہے بلکہ میڈیا کے بھی کچھ گوشے جو مودی کی مدح سرائی کو ہی اپنا اولین فریضہ سمجھنے لگے تھے وہ بھی اب حکومت کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے اور اس کی خامیوں اور نقائص کو اجاگر کرنے میں آگے آ رہے ہیں۔
ایسے وقت میں جبکہ مودی حکومت کی معیاد کا بڑا حصہ گذر چکا ہے اور اب ایک طرح سے آئندہ عام انتخابات کی تیاریاں سیاسی جماعتیں اپنے طور پر شروع کرچکی ہیں ایسے میںاگر بی جے پی کو خود اپنے اندرونی حلقوں سے تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ اس کیلئے قابل فکر لمحہ ہوسکتا ہے ۔ خاص طور پر گجرات میں اسمبلی انتخابات سے قبل ایسی تنقیدیں اس کیلئے مشکلات کا باعث ہوسکتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو اور سب سے زیادہ کانگریس پارٹی کو یہ ایک موقع ہے کہ وہ بی جے پی قائدین کی تنقیدوں کو عوام میں بہتر اور موثر انداز میں پیش کرتے ہوئے عوام میں رائے بنانے کی کوشش کرے ۔ ویسے بھی گجرات میں بی جے پی کیلئے مسائل ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ نریندر مودی ریاست کے چیف منسٹر نہیں رہے ہیں۔ وہاں ایک اور چیف منسٹر کو تبدیل کیا جاچکا ہے ۔ جو موجودہ چیف منسٹر ہیں وہ بھی پوری طرح گرفت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ریاست میں پٹیل برادری کو تحفظات فراہم کرنے کے مسئلہ پر احتجاج نے بھی بی جے پی کی مقبولیت کا گراف گھٹا دیا ہے ۔ ریاست میں بی جے پی تین معیادوں سے حکمران ہے ایسے میں حکومت کے خلاف رائے بننا بھی ایک لازمی امر سمجھا جاسکتا ہے ۔ اس ساری صورتحال کے بعد اگر خود بی جے پی کے سینئر قائدین اور سابق مرکزی وزرا اس کی معاشی پالیسیوں نوٹ بندی کے فیصلے اور جی ایس ٹی کے نفاذ پر تنقیدیں کرتے ہیں تو ریاست میں بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنے کا کانگریس کے پاس اس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔ خاص طور پرا س صورتحال میں جبکہ بی جے پی کی اترپردیش میں کامیابی کے بعد اپوزیشن کے حوصلے قدرے پست ہوئے تھے ۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے وہ اب بھی اقتدار اور کامیابیوں کے نشہ سے ہی سرشار ہے ۔ اسے اپنے ہی سینئر قائدین کی تنقیدوں یا پھر اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ نہیں ہے اور وہ ان قائدین کی تنقیدوں کو بھی ہنسی مذاق میں اڑانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اسے ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی پر حد سے زیادہ غرور ہوچکا ہے ۔ وہ ان تنقیدوں کا جواب دینے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی جو مسائل اٹھائے جا رہے ہیں ان کی کوئی وضاحت کی جا رہی ہے ۔ وہ صرف اپنے انداز میں اپنی تشہیر اور پروپگنڈہ میں مصروف ہے ۔ ایک ذمہ دار برسر اقتدار پارٹی کی حیثیت سے بی جے پی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ داخلی اور باہری دونوں ہی تنقیدوں کا جواب دے لیکن پارٹی ایسا کرنے کو تیار نہیں ہے اور اپوزیشن کو اس سے اچھا فائدہ اٹھانا چاہئے ۔