رذالت یا شرافت کچھ نہیں اب
میری دولت میری پہچان اب ہے
حکومت اور اپوزیشن کے شکوے
سیاسی پارٹیوں نے مل کر اس ملک کی جو درگت بنائی ہے اس کی ایک معمولی سی تصویر بدعنوانیوں اور دھوکہ دہی کے مرتکب افراد کو دی جانے والی سیاسی سرپرستی کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔ شراب کے بیوپاری وجئے مالیا اور ان سے قبل اور بعد کے بدعنوان لوگوں کو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا ساتھ حاصل رہا ہے۔ وجئے مالیا نے ہندوستانی عوام کی محنت کی کمائی کو بینکوں کے ذریعہ ہڑپ کر ملک سے فرار ہونے میں بھی سیاسی سرپرستی کا سہارا لیا۔ اب یہ شخص ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے۔ اصل موضوع پس منظر میں چلا گیا اس کو ہندوستان لانے کے کیس کی سماعت برطانوی عدالت میں زیردوران ہے۔ اسے بیرون ملک فرار ہونے میں مدد کرنے کا الزام موجودہ بی جے پی حکومت پر عائد کیا جارہا ہے۔ اپوزیشن کانگریس نے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے ارکان کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ وجئے مالیا کو محفوظ طور پر ملک سے جانے دیا گیا جبکہ اس کے خلاف لک آؤٹ نوٹس کو ہٹا لیا گیا جس کے بعد ہی وہ ایرپورٹ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے چلے جانے کے بعد اب حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرایا ہے۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے راست طور پر وزیراعظم مودی کو نشانہ بنا کر ان پر الزام عائد کیا کہ مفرور تاجر وجئے مالیا کی ملک سے فرار ہونے میں مدد کی گئی۔ سی بی آئی نے لک آؤٹ نوٹس کو وزیراعظم کی ہدایت پر ہی ہٹا لیا تھا۔ سی بی آئی کا تعلق راست وزیراعظم سے ہوتا ہے۔ اس طرح کے ہائی پروفائیل والے کیس میں جو کروڑہا روپئے کی دھوکہ دہی سے متعلق ہے وزیراعظم کی منظوری کے بغیر لک آؤٹ نوٹس کو ہٹا لیا ہے تو یہ ناقابل فہم عذر ہے۔ رقم کو ہڑپ کرلینا بینکوں کو دھوکہ دینا ایک سنگین کیس ہے۔ ہندوستانیوں کی جمع پونجی کو بینکوں سے اڑا لینے میں مدد کرنے والی سیاسی طاقتوں نے اب اپنی بغلیں بجانا شروع کی ہیں۔ 16 اکٹوبر 2015ء کو نوٹس ہٹا لی گئی۔ اس کے بعد ہی وجئے مالیا ہندوستان سے فرار ہوگیا۔ اس نے لندن میں یہ دعویٰ کرکے حکمراں بی جے پی کو مشکوک بنادیا ہے کہ اس نے ملک چھوڑنے سے قبل وزیرفینانس ارون جیٹلی سے ملاقات کی تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہورہا ہیکہ آخر مودی حکومت نے ایرپورٹ پر چوکسی والی نوٹس کو کیوں ہٹا لیا اور مالیا کے ملک چھوڑنے کا راستہ کیوں کر صاف کردیا۔ اس مسئلہ پر گذشتہ تین دن سے بی جے پی اور کانگریس کے درمیان لامتناہی الزام تراشیاں ہورہی ہیں۔ گویا سارے ملک کا مسئلہ اس ایک تنازعہ پر مرکوز کردیا گیا ہے۔ حکمرانی کی ساری توجہ اس کیس پر ہے اور اپوزیشن نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو حکومت کی خامیوں کو آشکار کرنے پر لگا دی ہیں۔ راجیہ سبھا رکن کی حیثیت سے وجئے مالیا کو منتخب کرنے والی کانگریس اور اس کے بعد دوسری میعاد کیلئے منتخب کرتے ہوئے بی جے پی نے شراب کے بیوپاری کی سرپرستی کی ہے تو اب دونوں پارٹیوں کی ہی غلطیاں سامنے آچکی ہیں۔ وجئے مالیا نے بینکوں سے قرض حاصل کرکے 2005ء میں ایرلائن شروع کی تھی۔ 2009ء تک یہ ایرلائن خسارہ سے دوچار ہوگئی۔ اب اس فرض کی ادائیگی کے معاملہ کو لیت و لعل میں ڈال دیا گیا۔ یہ سیاسی سرپرستی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا کہ وجئے مالیا اتنی خطیر رقم دے کر دھوکہ دے سکے۔ جن بینکوں سے قرض حاصل کیا گیا تھا ان میں بیشتر سرکاری زیرانتظام بینکس 17 بینکوں کے کنزرٹیم نے خسارہ سے دوچار ایرلائن کو 7000 کروڑ روپئے کی مدد کی اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آج قومی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس واقعہ کیلئے ذمہ دار ہیں تو وہ ہندوستانی عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اس ملک کی دیکھ بھال کرنے والے حکمراں کے سامنے ہر روز ملک کے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جارہی ہے تو ایک دن ملک کی ہر چیز ٹوٹ جائے گی۔ مودی حکومت نے شروع سے ہی جھوٹ کا شہر بسایا ہے تو یہاں سچ کے مریضوں کو علاج نصیب نہیں ہوگا۔ کانگریس کا سچ یہ ہیکہ اس نے اپنے دورحکومت میں وجئے مالیا کی سرپرستی کی اور بی جے پی کا جھوٹ یہ ہیکہ وہ سب کچھ کر گذر کر بھی انجان ہوگئی ہے۔ وجئے مالیا نے کیس میں ایسی تاریکیاں پیدا کردی ہیں کہ وہ ان تاریکیوں کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہ لندن میں اس نازسے بیٹھا ہے کہ بی جے پی اسے منانے کے جتن کرے۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی وجئے مالیا کی سرپرستی کرنے والی پارٹیاں ہیں لیکن وہ ملک سے جاتے جاتے ان سے اپنا سلسلہ توڑ گیا ہے۔ اسے واپس لانے کی کوششیں بھی دو پارٹیوں کی الزام تراشیوں میں الجھا کر رکھ دی گئی ہیں۔
افراط زر میں کمی، صارفین کو راحت
ملک میں ایک طرف پٹرول کی قیمتوں کو آسمان پر لے جایا گیا تو دوسری طرف یہ دعویٰ کیا جارہا ہیکہ افراط زر میں کمی آئی ہے۔ مہنگائی کی رت بدلنے کی خوشخبری سنانے والی بی جے پی حکومت کا دعویٰ ہیکہ ہندوستان کا ہول سیل افراط زر اعتدال پر آ گیا ہے۔ اگست میں یہ 4.53 فیصد پر آ کر ٹھہر گیا جبکہ جولائی میں 5.09 فیصد تھا۔ ضروری اشیاء خاص کر ترکاریوں کی قیمتیں کم ہوگئی ہیں۔ وزارت کامرس و صنعت کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹا میں بتایا گیا ہیکہ غذائی اشیاء میں افراط زر کم ہوا ہے اس کی وجہ سے اجناس، ترکاریوں کی قیمتیں کم ہوگئی ہیں۔ یہ اعداد کا ہیر پھیر محض آنے والے لوک سبھا انتخابات کو مدنظر رکھ کر سامنے لایا گیا ہے۔ سوال یہ ہیکہ جہاں پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے وہاں دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی خودبخود بڑھا دی جاتی ہیں پھر حکومت نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے اعداد کیوں پیش کئے ہیں۔ حکومت کی مالیاتی پالیسی بنانے والی کمپنی نے شاید بی جے پی کو انتخابی راحت پہنچانے کیلئے افراط زر میں کمی کے دعویٰ کے ساتھ ڈیٹا جاری کئے ہیں۔ ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر گھٹ رہی ہیں اس کا کوئی نوٹ نہیں لیا گیا۔ کیا حکومت سمجھتی ہیکہ عوام ان حقائق سے بے خبر ہیں اور حکومت کے پیش کردہ اعداد پر یقین کریں گے؟ ہوسکتا ہیکہ حکومت نے عوام کی خاموشی کو ہی اپنی کامیابی سمجھ لیا ہے لہٰذا ان کے سامنے جو کچھ بھی جھوٹ پیش کیا جائے وہ اسے یقین کے ساتھ قبول کریں گے بظاہر حکومت نے کھلم کھلا عوام کو بے وقوف بنانے کی مشق جاری رکھی ہے۔