حکومتوں کا ٹکراؤ ‘ منفی رجحان
دہلی کی اروند کجریوال حکومت ان دنوں ایک عجیب و غریب صورتحال کا شکار ہوچکی ہے ۔ اس حکومت کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے اور شائد یہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ ایک حکومت کے کام کاج میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مرکزی حکومت یا اس کے نمائندے رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایسی حکومت ہے جو عوام کے ووٹوں سے مکمل جمہوری طریقے سے منتخب ہوئی ہے لیکن اس حکومت کا المیہ ہے کہ اس کے ساتھ خود عہدیدار تعاون کرنے سے گریز کر رہے ہیں یا پھر ان عہدیداروں کو ریاستی حکومت سے تعاون کرنے کے خلاف دھمکایا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال کی وجہ سے دہلی میں انتظامیہ عملا ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے اور عوامی اہمیت کے کام کاج متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ انتظامی مسئلہ ہونے کے علاوہ ایک انتہائی منفی رجحان بھی ہے کیونکہ ہندوستان میں ہمیشہ ہی دیکھا گیا ہے کہ مرکز میں کسی پارٹی کی حکومت ہوتی ہے تو ریاستوں میں دوسری جماعتیں برسر اقتدار ہوتی ہیں۔ کچھ کم ہی ریاستیں ہوتی ہیں جہاں مرکزی حکومت میں رہنے والی جماعت کی حکومتیں ہوتی ہیں۔ تاہم اب جبکہ ملک میں بیشتر ریاستوں میں بی جے پی خود اپنے بل پر یا پھر اپنی حلیفوں کے ساتھ برسر اقتدار ہے تو وہ اپوزیشن کے اقتدار والی چند ریاستوں اور وہاں کی حکومتوں کو بھی نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ ملک میں اس کیلئے کوئی اپوزیشن ہی باقی رہے ۔ یہ رجحان ملک کی جمہوریت کیلئے خطرہ ہے اور اس سے جمہوریت کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ یہ جمہوریت ہی کا امتیاز ہے جو مرکز میں کسی جماعت کو تو ریاست میں کسی جماعت کو اقتدار سونپتا ہے ۔ یہ ہندوستانی عوام کے فیصلے ہوتے ہیں جس کی پابندی کرنا ہر ایک کیلئے لازمی ہوتا ہے اور یہی کچھ اس ملک میں ہوتا آیا ہے ۔ لیکن ایک طرف تو مختلف طریقوں سے خود عوام کی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو کہیں جو رائے دی جاچکی ہے اس کو خاطر میں لانے کی بجائے اس کو نشانہ بنانے اور منتخبہ حکومتوں کے کام کاج کو نشانہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
دہلی میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں اروند کجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی نے 70 کے منجملہ 67 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے ایک ریکارڈ بنایا تھا ۔ دہلی کے عوام نے بھی اس امید کے ساتھ اس پارٹی کو ووٹ دیا تھا کہ یہ ان کے مسائل کو حل کریگی اور ان کی زندگیوں میں راحت لانے کی کو شش کریگی ۔ اس حکومت نے کچھ اقدامات کئے بھی ہیں جن کے نتائج بھی ملنے شروع ہوگئے ہیں۔ دہلی کے سرکاری اسکولس اب کارپوریٹ اسکولس پر سبقت لے جا رہے ہیں۔ دہلی میں ایک مقررہ حد تک پانی مفت سربراہ کیا جا رہا ہے ۔ برقی بلوں کو کم کردیا گیا ہے ۔ دہلی میں بستی کلینکس کا آغاز کرتے ہوئے عوام کو بہتر نگہداشت صحت کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس پہل کا سابق سکریٹری جنرل اقوام متحدہ کوفی عنان نے بھی خیر مقدم کیا ہے اور اس کا جائزہ لینے اپنی ایک ٹیم کو بھی یہاں روانہ کر رہے ہیں۔ اس حکومت نے جب عوام کیلئے کام کرنا شروع کیا اور عوام بھی اس پر مطمئن دکھائی دے رہے ہیں تو مرکز کی بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی حکومت اس کو برداشت کرنے تیار نہیں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اروند کجریوال کو کام کرنے سے روکتے ہوئے بالواسطہ طور پر دہلی کے عوام سے انتقام لیا جا رہا ہے جنہوں نے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو یکسر مسترد کردیا تھا ۔ 70 رکنی اسمبلی میں جہاں کانگریس کامکمل صفایا ہوگیا تھا وہیں بی جے پی شدت کے ساتھ انتخابی مہم چلانے کے باوجود صرف تین نشستوں پر سمٹ کر رہ گئی تھی ۔
مرکز میں چاہے کسی پارٹی کی حکومت ہو اور ریاستوں میں کسی کی حکومت ہو دونوں کو وفاقی اصولوں کے مطابق مل کر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی جمہوریت کا تقاضا بھی ہے ۔ دونوں ہی حکومتیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے تعاون پر مبنی وفاقیت کو فروغ دینا چاہئے لیکن دہلی میں صورتحال کو قابو سے باہر کردیا گیا ہے ۔ لیفٹننٹ گورنر کے ذریعہ مرکزی حکومت دہلی کی حکومت کو کام کاج سے روکنا چاہتی ہے ۔ اس کیلئے عہدیداروں کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ انہیں دھمکانے کے دعوے بھی سامنے آ رہے ہیں اور ساری صورتحال جمہوری اصولوں اور تقاضوں کے مغائر ہے ۔ چاہے نریندر مودی کی حکومت ہو یا اروند کجریوال کا اقتدار ہو سب کو مل کر کام کرنا چاہئے ۔ ایک دوسرے سے ٹکراؤ کی وجہ سے ایک منفی رجحان پیدا ہو رہا ہے جو اچھی علامت نہیں ہے ۔