قیوم زمانی امام ربانی
مبارک منعموں کو اپنی دولت
مبارک عاشقوں کو داد و کلفت
تاریخ ہندوستان رود کوثر کے مصنف شیخ محمد اکرام امام ربانی قیوم زمانی حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی قدس سرہ کے تذکرہ کے ضمن میں آپ کے مذہبی و تجدیدی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں: عبادت خانہ کی تلخ اور ناعاقبت اندیشانہ بحثوں نے جو ناگوار صورت اختیار کرلی اور درباری خوشامدیوں اور علماء سوء کی جدت طرازیوں نے جو انتشار پیدا کردیا اسے روکنے کیلئے متعدد مسلمان امراء و علماء نے کوشش کی اور بعضوں نے بڑی قربانیاں دیں ۔ اس کے کامیاب سدباب میں جن محبان اسلام نے اواخر عہد اکبری میں حصہ لیا ان میں مرکزی حیثیت حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کی تھی جن کے دست راست دو شخص تھے امراء میں سے شیخ فرید اور اہل باطن میں شیخ احمد سرہندیؒ موخرالذکر کا مرتبہ بہرکیف بلند ہے ، لیکن معاملہ صرف ان خرابیوں کا نہ تھا جو عبادت خانہ اور دربار شاہی کی بحثوں سے پیدا ہوئی تھیں ۔ اطراف ملک میں جن حقیقی مشکلوں سے مسلمان دوچار تھے وہ ہندومت کی جارحانہ احیائیت کی پیداکردہ تھیں ۔ انکا دارالخلافہ میں پورا احساس نہ تھا ، ان کی طرف حضرت مجدد نے توجہہ دلائی ،امراء و اراکین سلطنت کو ان کے فرائض یاد دلائے اور شعائر اسلام کی بجا آوری اور اسلام کی سربلندی پر زور دیا لیکن حضرت مجدد ـکی کوششیں صرف مسلمانوں کے بااثر طبقے کو اپنے فرائض یاد دلانے اور افراد کے خیالات کی اصلاح تک محدود نہ تھیں ۔ انھوں نے عامۃ المسلمین بلکہ جمہور علماء اور صوفیہ کے خیالات کی بھی اصلاح کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عہد اکبری کی مذہبی بے قاعدگیوں کے خلاف جو ردعمل ہوا اور شرع و دین نے جو دوبارہ فروغ حاصل کرلیا اسے حضرت مجدد کی ذات والا صفات سے بڑی تقویت ملی ‘‘ ۔ ( رود کوثر :۲۸۴۔۲۸۵)
مولانا ابوالکلام آزاد حضرت مجدد علیہ الرحمۃ کو اکبری الحاد کا قاطع قرار دیتے ہیں ’’شہنشاہ اکبر کے عہد کے اختتام اور عہد جہانگیری کے اوائل میں کیا ہندوستان علماء و مشائخ حق سے بالکل خالی ہوگیا تھا؟ کیسے کیسے اکابر موجود تھے؟ لیکن مفاسدِ وقت کی اصلاح و تجدید کامعاملہ کسی سے بھی بن نہ آیا صرف مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کا وجود گرامی ہی ’’تن تنہا‘‘ اس کاروبار کا کفیل ہوا ۔(تذکیرہ ص : ۲۳۸)
شریعت کی ترویج ، طریقہ نقشبندیہ کی اشاعت ، شریعت اور طریقت کی تطبیق اور بدعت کی مخالفت کے علاوہ حضرت مجدد علیہ الرحمۃ نے احیاء اسلام کی کوشش کی اور اس کی تکمیل کیلئے ایک وسیع و عریض نظام کو قائم فرمایا ۔ آپ کے صدہا خلفاء تھے جو ہندوستان کے کونے کونے میں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی آپ کی تعلیمات کی اشاعت کررہے تھے ۔ آپ کے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے کامیاب طریقۂ اشاعت اور اس سلسلہ عالیہ کے خلفاء کی کثرت کا مبارک نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے سارے حصوں میں اہل ذوق اس سے منسلک ہوگئے اور سارے ملک میں ایک بار پھر ایک روحانی نظام نے اقتدار حاصل کرلیا۔
ڈاکٹر غلام مصطفی خان سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی روحانی توسیع میں حضرت مجدد علیہ الرحمۃ کی خدمات بیان کرتے ہیں ’’اور سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ جو حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے تک لطائف سبعہ ، نفی اثبات ، تہلیل لسانی ، مراقبۂ احدیت ، پھر مراقبات مشارب اور مراقبۂ معیت تک محدود تھا وہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے ولایت کبریٰ مراقبات کمالات نبوت و رسالت و اولوالعزم ، مراقبۂ حقیقت کعبہ ، حقیقت قران ، حقیقت صلوۃ ، معبودیت صرفہ ، حقیقت ابراھیمی ، حقیقتِ موسوی ، حقیقتِ محمدی، حقیقت احمدی، حب صوفیہ اور لاتعین کے مقامات تک وابستہ ہوگیا ۔ یہ چیزیں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے طفیل میں ان کے وابستگان تک پہنچی ہوئی ہیں۔
( رود کوثر۲۹۹۔۳۰۰)
حضرت مجدد علیہ الرحمۃ کے مکتوبات شریف آپ کی حین حیات تین جلدوں میں مرتب ہوگئے تھے اور اقطاع عالم میں بہت جلد مقبول ہوگئے ۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں : ’’تصوف اسلام کے ذخیرہ میں سب سے زیادہ اثر میرے اوپر دو ہی کتابوں کا پڑا ہے نمبر اول پر مثنوی ہے جس نے دہریت و الحاد سے کھینچ کر مجھے اسلام کی راہ دکھائی ۔ اس اجمال کے بعد ضرورت تفصیل کی تھی ۔ یعنی اسلام کے اندر عقائد و اعمال میں متعین کون سی اختیار کی جائے ۔ اس باب میں شمع ہدایت کا کام مکتوبات ہی نے دیا ۔ ( رود کوثر ص : ۳۲۵)
مکتوبات امام ربانی ، مضامین کی خوبی ، تنوع ، علمی ، روحانی فضیلت کے علاوہ بلند پایہ طرز تحریر ، قوت استدلال اور انشائی خوبیوں سے معمور ہے۔ آپ نے ایک مکتوب حالت قید میں اپنے فرزندان گرامی کے نام لکھا جو پدرانہ شفقت و محبت سے لبریز ہے اور بلند ہمتی ، اور تسلیم و رضا کا عظیم نمونہ ہے ۔ اسی وصیت نامہ سے کچھ اقتباس درج کئے جاتے ہیں ۔
’’فرزندان عزیز ! ابتلاء کا وقت اگرچہ تلخ و بے مزہ ہوتا ہے لیکن اگر فرصت دیں تو غنیمت ہے ۔ تمکو اب فرصت مل گئی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کی حمد بجالاکر اپنے کام میں لگے رہو اور ایک دم بھی فراغت و آرام اپنے لئے پسند نہ کرو اور تین چیزوں میں سے ایک میں ضرور مشغول رہو ۔ قرآن شریف کی تلاوت کرو یا لمبی قرأت کے ساتھ نماز ادا کرو یا کلمۂ طیبہ لاالہ الااﷲ کی تکرار کرتے رہو ۔ کلمہ لاالہ الااﷲ کے ساتھ حق تعالیٰ کے سوا تمام جھوٹے خداؤں اور اپنے نفس کی خواہشات کی نفی کرنی چاہئے اور تمام مرادوں اور مقصود وں کو دفع کرنا چاہئے ۔ کیونکہ مراد کا طلب کرنا اپنی اُلوہیت کا دعویٰ کرنا ہے ۔ بلکہ سینہ میں کسی مراد کی گنجائش نہ رہے اور متخیلہ (خیال) میں بھی کوئی ہوس باقی نہ رہے تاکہ بندگی کی حقیقت حاصل ہو ۔ اپنی مراد کو طلب کرنا گویا اپنے مولا کی مراد کو دفع کرنا اور اپنے مالک کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے ۔ اس امر کی برائی اچھی طرح معلوم کرکے اپنی اُلوہیت کے دعوے کی نفی کرو تاکہ تمام ہوا و ہوس سے کامل طورپر پاک ہوجاؤ اور طلب دلی کے سوا تمہاری کوئی مراد نہ رہے ۔ یہ مطلب اﷲ تعالیٰ کی عنایت سے بلاوا بتلاء کے زمانہ میں بڑی آسانی سے میسر ہوجاتا ہے اور اس زمانہ کے سوا ہواو ہوس سد ّ سکندری ہے ۔ گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں مشغول رہو کہ اب فرصت غنیمت ہے ۔ فتنہ کے زمانے میں تھوڑے کام کو بہت اجر کے عوض قبول کرلیتے ہیں اور فتنہ کے زمانے کے سوا سخت ریاضتیں اور مجاہدے درکار ہیں۔ اطلاع دینا ضروری ہے شاید ملاقات ہو یا نہ ہو … چھوٹوں پر شفقت رکھو اور ان کو پڑھنے کی ترغیب دو اور جہاں تک ہوسکے تمام اہل حقوق کو ہماری طرف سے راضی کرو اور ایمان کی سلامتی کے لئے ممد و معاون رہو ۔
بار بار لکھا جاتا ہے کہ اس وقت کو بیہودہ اُمور میں ضائع نہ کرو اور ذکر الٰہی کے سوا کسی کام میں مشغول نہ ہو ۔ اب کتابوں کے مطالعہ اور طلباء کے تکرار کاوقت نہیں ہے ۔ اب ذکر کا وقت ہے ۔ تمام نفسانی خواہشوں کو جو جھوٹے خدا ہیں لا کے نیچے لاکر سب کی نفی کرو اور کوئی مراد و مقصود سینے میں نہ رہنے دو حتی کہ میری خلاصی بھی جوکہ تمہارے لئے نہایت ضروری ہے تمہاری مراد و مطلوب نہ ہو اور حق تعالیٰ کی تقدیر اور فعل او ارادہ پر راضی رہو … حویلی و سرائے و چاہ و باغ اور کتابوں اور دوسری تمام اشیاء کا غم سہل ہے ان میں کوئی چیز تمہارے وقت کی مانع نہ ہو اور حق تعالیٰ کی مرضیات کے سوا تمہاری کوئی مراد اور مرضی نہ رہے ۔ ہم اگر مرجاتے تو یہ چیزیں بھی چلی جاتیں بہتر ہے کہ ہماری زندگی میں چلی جائیں تاکہ کوئی فکر نہ رہے ۔ اولیاء نے ان اُمور کو اپنے اختیار سے چھوڑا ہے ہم حق تعالیٰ کے اختیار سے ان اُمور کو چھوڑ دیں اور شکر بجالائیں۔ اُمید ہے کہ مخلصین بفتح لام ( جن کو اﷲ نے خالص کردیا ) میں سے ہوجائیں گے ۔ جہاں تم بیٹھے ہو ، اسی کو اپنا وطن خیال کرو ، چند روزمرہ زندگی جہاں گزرے یاد حق میں گزرجائے ۔ دنیا کا معاملہ آسان ہے اس کو چھوڑکر آخرت کی طرف متوجہہ رہو ‘‘ ۔
(رودکوثر ۳۳۰۔۳۳۱)