حضرت فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کمالات کا مجموعہ

حافظ سید زبیر ہاشمی، معلم جامعہ نظامیہ

اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کا ہم سب پر بے انتہاء شکر و احسان ہے کہ اُس نے ہم تمام کو مذہب اسلام عطا فرمایا۔ اسلام وہ بہترین مذہب ہے جس کی تکمیل اﷲسبحانہ و تعالیٰ نے کرکے ِاسے سب انسانوں کے لئے پسند کیا ہے یعنی یہ عالمی مذہب ہے، ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے ایسا ہے تو عالمی سیاق و سباق میں اس کا سابقہ مختلف قوموں کی معاشرت سے، ان کے اسلوب زندگی سے، تاریخی و جغرافیائی حالات سے ہوگا، اگر اسلامی تاریخ کا بڑی عمیق یعنی گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایسا ہوا بھی ہے۔ پہلے جزیرۂ عرب کے مشرکین سے واسطہ پڑا، پھر یہود سے، پھر نصاری سے، پھر پارسی مذہب سے، پھر بدھ مت اور آخر میں ہندو ازم سے۔

جب اتنے وسیع دائرے میں اس کا پھیلاؤ ہو اور اتنے مختلف عقاء و افکار سے رابطہ ہوتو فطری اور منطقی طور پر یہ لازمی ہوجاتا ہے کہ اس میں لچک بھی ہو اور جن حالات میں جن لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے، ان کے مزاج، مزاق میلان اور ضرورت کا لحاظ رکھا جائے۔ مذہب یا ماحول ایسا ہوگا جس کا بعض یا بیشتر باتیں اسلامی اصول و عقائد سے ملتی جلتی ہونگی کہیں ایسے مذہب سے سابقہ پڑیگا جس کی کوئی کل سیدھی نہ ہو کہیں تو اف ہوگا تو کہیں تصادم ہوگا ان حالات میں دو باتیں ضروری ہوجاتی ہیں۔
۱} ایک یہ کہ اصول دین کی حفاظت کیجائے ان پر کسی سے کوئی سمجھوتے کا رویہ ممکن نہیں اسلام میں توحید، رسالت اور آخرت تین بنیادی پتھر ہیں۔

۲} دوسرے بہت سے امور جن کا تعلق اسلامی معاشرت سے ہے یا جن کا تعین فقہاء نے قرآن و سنت کی تشریح و تاویل سے کیا ہے۔ اور کئی مسائل کا تصفیہ کرنے کیلئے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھنا بہتر ہوگا ہم کوئی فیصلہ مغلوب و مقدور ہوکر کریں تو اس سے ہزار درجے بہتر ہے کہ ایسا فیصلہ اپنی صواب دید سے کرلیں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصول دین کا تحفظ کس طرح ہو؟ یہ عوام کے بس کی بات نہیں، صحیح اور معتدل مزاج رکھنے والے علماء کا کام ہے یہ دین کے لفظ یعنی ظاہر دین کے شارح ہیں عام آدمی تک دین کی صاف ستھری شکل پہنچے یہ ذمہ داری ہمارے علماء اور فقہاء کی ہے دینی اعمال و اشغال پاکیزہ، شفاف، دلکش اور دلنواز ہو یہ منصب ہمارے صوفیاء کا ہے، جو دین کی روح کے مماثل ہیں، اس کی انسانی دوستی، دردمندی اور بیکراں محبت کا نمونہ دکھاتے ہیں۔
دین کی تعلیم، تشریح و تفسیر تحفظ و تبلیغ کے لئے فقہاء اور صوفیاء دونوں ضروری ہے۔ حضرت گیسودراز بندہ نواز رحمۃ اﷲ کے قول ’’جوان صالح اور فقیہ صوفی‘‘ کبریت احمر کا حکم رکھتے ہیں یعنی نہایت کمیاب ہیں۔

شیخ الاسلام والمسلمین، استاد سلاطین دکن حضرت مولانا امام حافظ محمد انوار اﷲ فاروقی فضیلت جنگ خان بہادر رحمۃ اﷲ علیہ کے متعلق ایک محقق نے کیا ہی بہترین بات تحریر کی ہے کہ ’’شیخ الاسلام ہی کبریت احمر تھے‘‘۔ ان کی پاکیزہ زندگی کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک صالح بھی تھے اور فقیہ بھی۔
فقیہ صوفی، ظاہر وباطن دنوں کی اصلاح کرتاہے۔ یہ سلطنت آصفیہ کی خوش نصیبی تھی کی کہ آخری صدی میں یہاں حضرت مولانا حافظ محمد انوار اﷲ فاروقی فضیلت جنگ رحمۃ اﷲ علیہ کا ظہور ہوا۔ جن کی محبوب محترم شخصیت کمالات کا مجموعہ ہے، وہ مفسر قرآن اور حدیث بھی ہیں، فقیہ زماں اور اصولی بھی ہیں، متکلم اور فلسفی بھی ہیں، مصلح و مجدد بھی ہیں اور ادیب انشاء پرداز بھی ہیں، شاعر بھی، مؤرخ اور سیرت نگار بھی ہیں، معلم و مربی بھی ہیں۔ واعظ و خطیب بھی ہیں، مناظر و منطقی بھی ہیں۔
اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ان کے ظاہر کو علم و فضل سے آراستہ کیا تھا تو باطن کو نور عرفان سے جگمگا دیا تھا، ان کا محض نام ہی انوار اﷲ نہیں، انوار الٰہی سے ان کا ظاہر بھی روشن ہے اور باطن بھی منور، وہ نور بھی کیسا کہ اس کی کرنیں آج بھی پھیل رہی ہیں، اقصائے عالم اجاگر کررہی ہیں، جامعہ نظامیہ منبع انوار ہے، یہاں سے فارغ ہوکر نکلنے والے علماء انوار الٰہی کی شعاعیںہیں۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا حافظ محمد انوار اﷲ فاروقی فضیلت جنگ رحمۃ اﷲ علیہ کا مسلک اعتدال تھا، انہوں نے اختلاف بین المسلمین کو کبھی ہوا نہیں دی، اپنی ساری توجہ تعلیم کی اشاعت، مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح، طلباء کی کردار سازی، عامۃ المسلمین کی رہنمائی پر مرکوز رکھی۔
zubairhashmi7@gmail.com