حضرت فاروق اعظم کی اولیات

مولانا غلام رسول سعیدی

اوائل عہد فاروقی تک لوگ الگ الگ نماز تراویح پڑھا کرتے تھے، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے انھیں امام واحد کی اقتدا میں جمع کردیا اور سب مل کر جماعت سے تراویح پڑھنے لگے اور اس میں ختم قرآن کا اہتمام کرلیا گیا۔ (بخاری و بیہقی)
بظاہر یہ صرف اتنی سی بات تھی کہ حضرت فاروق اعظم نے تراویح کو باجماعت کردیا، لیکن حقیقت میں اس میں بہت عظیم اور دور رس فوائد پنہاں تھے، جن میں سے بعض یہ ہیں:
(۱) تراویح میں قرآن سنانے کے شوق سے لوگ بکثرت قرآن پاک حفظ کرتے ہیں۔ ایک مسجد میں تراویح ہو تو کئی حافظ شریک ہوتے ہیں، ایک حافظ قرآن سناتا ہے اور بہت سے حافظ قرآن سنتے ہیں اور تجربہ سے یہ امر ثابت ہے کہ جو حافظ قرآن سنانا یا سننا چھوڑدے، اس سے قرآن بھول جاتا ہے اور آج دنیا میں جو حفاظ قرآن کی اس قدر کثرت ہے، یہ سب تراویح کی برکت اور فراست حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا صدقہ ہے۔ الغرض قرآن کریم کے محفوظ رہنے کی صرف دو شکلیں ہیں، یا صورت مصحف میں یا سینہ حافظ میں اور قرآن مصحف میں محفوظ حضرت فاروق اعظم کی فکر سے ہوا اور سینہ میں محفوظ آپ کی فراست سے ہوا۔

(۲) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن پاک کا دَور کیا کرتے تھے۔ تراویح کے سبب اب ہر سال رمضان میں حافظ اور سامع قرآن کا دَور کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت تازہ رہتی ہے۔
(۳) سال میں ایک مرتبہ پورا قرآن سن لینے سے یہ موقع ملتا ہے کہ ہم اپنی ایک سال کی ڈائری کو دستور قرآن کے آئینہ میں دیکھ سکیں اور یہ فیصلہ کرسکیں کہ ہم نے قرآن پاک کے کتنے احکام کی تعمیل کی ہے اور کتنے احکام کی مخالفت اور پھر قرآن کی روشنی میں ہم اپنے کردار کے بگڑے ہوئے خدوخال کو درست کرسکیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہمیشہ امت کی تعمیر اور ملت کے استحکام کی لگن میں رہتے تھے۔ آپ کی فراست نے امت کو ہجری تقویم دی، شراب نوشی پر اسی کوڑے حد مقرر کی، خلیفہ رسول کے لمبے چوڑے اضافی نام کی جگہ امیر المؤمنین کا لقب اختیار کیا، امیر کے لئے بیت المال سے وظیفہ کی ابتدا کی، ہجو پر تعزیر مقرر کی، رات کو اٹھ کر احوال رعایا کے تجسس کا عمل جاری کیا، تادیب کے لئے درہ ایجاد فرمایا، اطراف مملکت میں قضاۃ کا تقرر کیا، مساجد میں قنادیل کی روشنی کا انتظام کیا اور ایسے بہت سے کام کئے۔

حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی قدآور اور تاریخ ساز شخصیت کے سامنے ہر فراز، نشیب معلوم ہوتا ہے۔ آپ کی عبقری نظر کا یہ عالم تھا کہ مدینہ می دوران خطبہ بھی ’’نہاوند‘‘ کے امیر لشکر کو ہدایات دیتے رہتے تھے۔ دشت و جمل کی وسعتیں نگاہِ فاروق اعظم کے سامنے سمٹ جاتی تھیں۔ جزیرۂ عرب سے لے کر ساحل ’’مکران‘‘ تک تمام حکام آپ کے رعب سے سہمے ہوئے رہتے تھے۔ حضرت عمر کی فہم و فراست اور عقابی نظر نے اس امت کو بہت کچھ دیا ہے۔ عہد فاروقی کی تہذیب، قانون، معیشت، عوام کی خوشحالی اور فتوحات کی وسعت دیکھ کر بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو ایک اور عمر مل جاتا تو آج دنیا میں اسلام کے سوا کوئی اور مذہب نہ ہوتا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبقری شخصیت، اسلامی تاریخ میں ایک زریں باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کا دَور خلافت، حکومت کی وسعت، عدل و انصاف کی فراوانی، عوام کی خوشحالی اور اسلامی فنون کی ترویج و ترقی کا دَور تھا۔ کفار و مشرکین کے ایوانوں پر حضرت فاروق اعظم کی ہیبت اور دشت و جبل پر آپ کی حکومت تھی۔ آپ کے رعب سے حکام لرزہ بَرانداز تھے اور صحرا و دریا کو بھی حکم عدولی کی جرأت نہ تھی۔ حضرت فاروق اعظم کے محاسن و کمالات جتنے زیادہ ہیں، اسی قدر آپ کے حاسدین کی بھی کثرت ہے۔ آپ کی وہ تمام خدمات جن سے عمارت اسلام کو استحکام ملا، ان حاسدین کو وہ مجموعۂ عیوب نظر آتی ہیں۔