حضرت فاروق اعظم ؄ کی فکر راسخ

مولانا غلام رسول سعیدی
ایک منافق نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلہ کو ترجیح دی۔ حضرت فاروق اعظم نے اس منافق کا قتل کردیا۔ لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ ’’عمر نے ایک مسلمان کو قتل کردیا‘‘۔ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: ’’حضور! جو آپ کا فیصلہ نہ مانے وہ مسلمان کب ہے؟‘‘۔ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ’’آپ کے رب کی قسم! وہ مسلمان ہی نہیں جو آپ کا فیصلہ نہ مانے‘‘۔ (سورۃ النساء۔۶۵) (فخر رازی)

ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوئے ہوئے تھے، ایک شخص بغیر اجازت گھر میں داخل ہوکر آپ کو جگادیا۔ آپ نے دعا کی: ’’اے اللہ! بلااجازت گھروں میں داخلہ کو حرام قرار دے دے‘‘۔ تو یہ آیت نازل ہوئی: ’’اے ایمان والو! بغیر اجازت دوسروں کے گھروں میں نہ داخل ہو، جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے رہنے والوں پر سلام نہ کرلو‘‘۔ (سورۃ النور۔۲۷) (سیوطی)
مذکورہ شواہد سے یہ امر ظاہر ہوگیا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان وحی و سکینہ کی ترجمان تھی۔ آپ کی زبان پر جب بھی کوئی کلمہ آیا، وہ عین حق و صواب تھا اور ان کی فکر و رائے وحی کے موافق اور کلام الہی کے مطابق تھی۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف مقدمات کا فیصلہ اس بالغ نظری اور صحیح فکر کے ساتھ کیا، جس سے صرف ان جزوی معاملوں پر ہی اثر نہیں پڑا، بلکہ ان فیصلوں سے فکر و اجتہاد کے اصول معلوم ہوئے اور امت کے لئے استنباط احکام اور استخراج مسائل کی راہیں کھل گئیں۔ ان تمام واقعات کا شمار تو بہت مشکل ہے، البتہ چند مثالیں ضرور پیش کی جاسکتی ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں یہ معاملہ لایا گیا کہ مطلقہ عورت کو رہائش اور خرچ ملے گا یا نہیں؟۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ ملے گا۔ اس وقت فاطمہ بنت قیس نے یہ روایت کی کہ مجھے میرے خاوند نے طلاق دی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’تیرے لئے کوئی نفقہ اور سکنیٰ نہیں‘‘۔ حضرت عمر نے جواب میں فرمایا: ’’ہم کتاب و سنت کو محض ایک عورت کے قول کی بناء پر نہیں چھوڑسکتے، خدا جانے وہ سمجھ نہ سکی یا بھول گئی‘‘ (ابوبکر جصاص) اس فیصلہ سے یہ اصول معلوم ہوا کہ خبر واحد سے کتاب و سنت متواترہ کے حکم کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اکثر احکام اسی اصول سے مستنبط کئے ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں بہت سے قراء اور حفاظ جنگ یمامہ میں شہید ہو گئے۔ اس وقت حضرت عمر، سیدنا ابوبکر صدیق کے پاس آئے اور کہا: ’’مجھے خوف ہے کہ اس طرح ایک ایک کرکے کہیں سارے حافظ اور قاری فوت نہ ہو جائیں اور قرآن ہمارے درمیان نہ رہے، اس لئے آپ تمام قرآن کو جمع کرکے محفوظ کردیں‘‘۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا: ’’میں وہ کام کیسے کروں، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟‘‘۔ حضرت فاروق اعظم نے جواب میں کہا: ’’رب کعبہ کی قسم! اس کام میں خیر ہے‘‘۔ آپ یونہی بار بار فرماتے رہے، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں بھی وہ روشنی پیدا کردی، جو اس سے پہلے حضرت عمر کو عطا کی تھی۔ پھر حضرت ابوبکر نے اس عظیم کام کے لئے قراء صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک کمیٹی مقرر کی اور تمام قرآن پاک کو ایک جگہ جمع کرادیا۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو ملکوتی زبان اور تعمیری فکر عطا کی تھی، جس کام کے لئے انھیں محدث اور ملہم بنایا تھا، اسی وصف سے آپ نے اس موقع پر حفاظت قرآن کی تحریک کی اور آج جو امت مسلمہ کے ہاتھوں میں صحیفۂ قرآن موجود ہے، یہ صرف حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نظر صائب اور فکر راسخ کا ثمرہ ہے۔