مولانا غلام رسول سعیدی
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۲۳ھ میں مسجد نبوی کی ازسرنو تعمیر کی اور اس میں پہلے کی نسبت بہت وسعت کردی، حتیٰ کہ اس کا طول ایک سو ساٹھ ہاتھ اور عرض ڈیڑھ سو ہاتھ پر مشتمل ہو گیا۔ آپ نے نقشین پتھروں سے اس کی دیواریں اور ساگوان کی لکڑی سے اس کی چھت بنواکر مسجد نبوی کو بے حد حسین و جمیل بنوادیا۔ (تاریخ الخلفاء۔۱۲۰)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا وظیفہ باقی صحابہ کرام کی نسبت دوگنا کردیا۔ ہمیشہ اپنے مال سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا۔ اپنے بارہ سالہ دور خلافت کے اندر بحیثیت خلیفہ ایک پیسہ بھی بیت المال سے نہیں لیا اور اپنا مقررہ وظیفہ عام مسلمانوں کے لئے چھوڑدیا۔
خلیفۂ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سالانہ وظیفہ پانچ ہزار درہم تھا، اس حساب سے حضرت حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے بارہ سال میں ساٹھ ہزار درہم کی رقم بیت المال میں مسلمانوں کے لئے چھوڑ دی۔ آپ ہر سال حج کے لئے جاتے اور امیر الحج کے فرائض انجام دیتے، البتہ جس سال شہید ہوئے اس سال محصور ہونے کے سبب حج کے لئے نہ جاسکے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاشنہ اقدس میں بے تکلفی سے تشریف فرما تھے اور آپﷺ کی مبارک پنڈلیوں سے چادر ہٹی ہوئی تھی۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اجازت لے کر آئے اور حضورﷺ اسی کیفیت میں بیٹھے رہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اجازت لے کر تشریف لائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر بھی اسی کیفیت میں بیٹھے رہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت طلب کی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک درست کرکے پنڈلیاں ڈھانپ لیں۔ جب یہ لوگ چلے گئے تو حضرت سیدہ عائشہ نے پوچھا: یارسول اللہ! حضرت ابوبکر آئے اور آپ نے ان کے آنے پر اپنے بیٹھنے کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی، پھر حضرت عمر آئے پھر بھی آپ نے کوئی پرواہ نہیں کی اور جب حضرت عثمان آئے تو آپ نے اپنے کپڑے درست کرلئے اور سنبھل کر بیٹھ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اس شخص سے حیاء کیوں نہ کروں، جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں‘‘ (مسلم و ترمذی، مشکوۃ۔۵۶۱) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ حیاء میں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام فرشتوں سے بھی اونچا تھا۔ تمام صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حیاء کرتے تھے اور حضورﷺ حضرت عثمان سے حیاء کرتے تھے، یعنی مقام حیاء میں تمام صحابہ حضورﷺ کے طالب اور حضرت عثمان آپﷺ کے مطلوب تھے۔
حضرت عبد الرحمن بن خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کی تیاری کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو صدقہ کی ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان کھڑے ہوئے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! سو اونٹ مع پالان وغیرہ کے اللہ کی راہ میں پیش کروں گا‘‘۔ حضورﷺ نے پھر ترغیب دی تو آپ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میں دو سو اونٹ مع پالان وغیرہ کے راہ خدا میں پیش کروں گا‘‘۔ حضورﷺ نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میں تین سو اونٹ مع پالان وغیرہ کے اللہ کی راہ میں پیش کروں گا‘‘۔ حضرت عبد الرحمن بن خباب کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ حضورﷺ (فرط مسرت سے) منبر سے نیچے اتر آئے اور دو بار فرمایا: ’’آج کے بعد عثمان جو چاہے کرے، ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا‘‘۔
حضرت عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ہزار دینار لے کر حاضر ہوئے اور وہ دینا لاکر حضورﷺ کی گود میں ڈال دیئے۔ حضرت عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضورﷺ (خوشی سے) ان دیناروں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں اور دو بار فرمایا کہ ’’آج کے بعد عثمان جو چاہیں کریں، ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا‘‘۔ (مشکوۃ (مسند احمد) صفحہ۵۶۱)