مولانا غلام رسول سعیدی
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے قبول اسلام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ میرے دوست تھے۔ ایک دن انھوں نے مجھے متفکر پایا تو مجھ سے حال دریافت کیا۔ میں نے اپنی خالہ سے جو باتیں سنی تھیں، وہ ان کو بتلائیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ’’اے عثمان! تم صاحب فہم و فراست ہو، تم پر حق باطل سے مشتبہ نہیں رہ سکتا۔ تمہاری قوم جن تراشیدہ بتوں کی عبادت کرتی ہے، یہ نہ سن سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا: قسم بخدا! ایسا ہی ہے۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ’’خدا کی قسم! تمہاری خالہ نے سچ کہا ہے کہ محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے سچے رسول ہیں، جن کو اللہ تعالی نے تمام مخلوق کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔ تم ان کی خدمت میں حاضر ہو اور ان کا کلام سنو‘‘۔ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ اسی وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی وہاں موجود تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے بارے میں عرض کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اے عثمان! اللہ تعالی کی جنت قبول کرلو، میں تمہارا اور تمام مخلوق کا رسول ہوں‘‘۔ یہ کلام آثر آفریں سنتے ہی میں نے عرض کیا کہ ’’میں اسلام قبول کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، وہ واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘۔ (الاصابہ، ج۴، صفحہ۳۲۸)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی منجھلی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا پہلے ابولہب کے بیٹے عتبہ سے نکاح ہوا تھا، مگر اعلان نبوت کے بعد عتبہ کے باپ ابولہب نے اسلام دشمنی کی وجہ سے اپنے بیٹے پر دباؤ ڈال کر حضرت رقیہ کو طلاق دِلوادی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں اپنی اس صاحبزادی کا نکاح حضرت عثمان سے کردیا۔ تقریباً چودہ سال تک حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کی زوجیت کا شرف حاصل رہا۔ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا بیمار ہو گئیں، حضرت عثمان غنی ان کی تیمارداری میں مصروف رہے، اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے آپ غزوۂ بدر میں شرکت نہ کرسکے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کا اہل بدر میں شمار کیا اور ان کے حصہ کا مال غنیمت بھی انھیں عطا فرمایا۔ اس بیماری میں حضرت رقیہ جانبر نہ ہوسکیں اور وصال فرما گئیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے کردیا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بدر کے سوا تمام غزوات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زاہدانہ زندگی دیکھ کر اکثر ملول رہتے تھے اور جب موقع ملتا حضور کی خدمت میں ہدایا اور تحائف پیش کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو معلوم ہوا کہ آل رسول چار روز سے فقر و فاقہ کے ساتھ دن گزار رہے ہیں، سنتے ہی بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اسی وقت کھانے پینے کا بہت سا سامان اور تین سو درہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نذر کئے۔ (کنزالعمال،ج۶،صفحہ۳۷۶)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب اس قدر ملحوظ تھا کہ جس ہاتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، اس ہاتھ کو کبھی نجاست یا محل نجاست سے مس نہیں ہونے دیا۔ آپ ہر روز صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے، ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے اور صحابۂ کرام کی غربت و افلاس سے ہمیشہ بے قرار رہتے۔ ایک دفعہ ایک جہاد میں ناداری اور مفلسی کے سبب صحابہ کرام کے چہرے اداس تھے اور منافقین اس وجہ سے ہر طرف خوشی کا اظہار کرکے اکڑتے پھر رہے تھے۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی وقت چودہ اونٹوں پر کھانے پینے کا سامان لادکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کیا، تاکہ آپﷺ یہ اشیائے خوردونوش صحابہ کرام میں تقسیم فرمادیں۔ (کنزالعمال)