حضرت شاہ محمد صدیقی سودؔاگر

حافظ محمد سلطان احمد
حضرت شاہ محمد صدیقی سوداگر علیہ الرحمہ کی ولادت ۶؍ ربیع الاول ۱۲۷۶ھ میں محلہ نل بازار بمبئی میں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت شاہ عبد القادر صدیقی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے جید عالم اور صوفی بزرگ تھے اور آپ کے جد اعلیٰ حضرت قاسم شاہ صدیقی کا شمار کشمیر کے صاحب تصرف بزرگوں میں ہوتا تھا۔ آپ کا سلسلۂ نسب چوبیسویں پشت میں خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ آصف سادس کے زمانے میں اپنے والد کے ساتھ حیدرآباد تشریف لائے اور محلہ پیٹلہ برج میں سکونت اختیار کی۔ بچپن ہی سے آپ میں علمی ذوق پایا جاتا تھا، لہذا قابل اساتذہ کی نگرانی میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ سترہ برس کی عمر میں حضرت مرزا سردار بیگ صاحب سے بیعت کی اور اس کے بعد سخت مجاہدات و ریاضت میں مشغول ہو گئے۔
۱۹۰۸ء میں آپ کا مکان اور کتب خانہ (موقوعہ محبوب شاہی) رودِ موسیٰ کی طغیانی میں بہہ گئے تو آپ نے محلہ تاڑبن میں واقع ایک پہاڑی پر قیام کیا اور وہیں ایک عالیشان خانقاہ تعمیر کروائی، جس کا نام آپ نے خواجہ پہاڑی رکھا۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کو غیر معمولی عقیدت تھی، اسی مناسبت سے آپ نے خانقاہ کا نام ’’خواجہ پہاڑی‘‘ رکھا۔ آپ ایک عرصہ تک مسجد عالمگیری تاڑبن میں قیام پزیر رہے، جب کہ خانقاہ خواجہ پہاڑی زیر تعمیر تھی۔ آپ نے فن تصوف میں مختلف کتابیں تحریر کیں، جن میں سے سولہ کتابیں (الوجوب، وحدۃ الوجود، اعیان ثابتہ، فنا و بقا، محود اثبات، عنیت و غیریت، نون و قلم، پیر و مرید، خطرات، نفخات رحمانی، القلب، صحو و سکر، قبض و بسط، غیب و حضور، نفس اور شرح فصوص الحکم) زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ آپ ایک منفرد نثرنگار کے علاوہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ آپ کا کہنا تھا کہ ’’دعویِٔ عشق میں سالک کو سخت آزمائشوں کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے، کیونکہ راہِ عشق میں معشوق کا اپنے عاشق سے امتحان لینا ایک قدیم سنت ہے‘‘۔ آپ نے ۱۴؍ رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ کو دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کیا۔ آپ کا مدفن خواجہ پہاڑی ہے۔