حضرت سیدنا حمزہ بن عبد المطلب؄

مولاناحبیب عبد الرحمن الحامد

حضرت سیدنا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ خاندان ہاشمی کے چشم و چراغ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور دودھ شریک بھائی تھے۔ حضورﷺ کی والدہ حضرت سیدہ بی بی آمنہ اور حضرت حمزہ کی والدہ ہالہ بنت وہیب چچازاد بہنیں تھیں۔ آپ بچپن ہی سے تلوار، نیزہ اور تیر چلانا جانتے تھے اور اپنی شجاعت کا لوہا منوا چکے تھے۔ شکار کرنا آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان نبوت کرنا ان کے لئے کوئی خاص بات نہ تھی کہ نبوت کا چھٹا سال آگیا۔ ابوجہل ایک دن حضورﷺ کے ساتھ بڑی گستاخی کرنے لگا اور آپﷺ پر مٹی وغیرہ بھی پھینکا۔ یہ واقعہ عبد اللہ بن جدعان کی باندی نے دیکھا اور حضرت حمزہ سے بیان کیا کہ ’’اے ابو عمارہ! اگر تم پہلے آتے تو دیکھ لیتے کہ عمر بن ہشام (ابوجہل) نے آپ کے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کیسا برا سلوک کیا‘‘۔ حضرت حمزہ جذبات میں خانہ کعبہ کی طرف چلے، جہاں ابوجہل اپنے قبیلہ بنو مخزوم کے لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت حمزہ نے اپنی کمان سے اس کے سر پر ایک ٹھوکا دیا، جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور وہ خون میں نہاگیا۔ بنو مخزوم کے لوگ حضرت حمزہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے کہ ابوجہل نے یہ کہتے ہوئے روک دیا اور کہا: ’’میں نے ان کے بھتیجے کے ساتھ زیادتی کی تھی، جس کا بدلہ چچا نے لے لیا‘‘۔ ابوجہل کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں قبیلہ ہاشمی اور بنو مخزوم میں جنگ نہ چھڑ جائے۔ اسی دوران حضرت حمزہ نے بڑے جذبات میں کہا کہ ’’میں بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دین میں داخل ہوں، کوئی مجھے گالی دے کر تو دیکھے‘‘۔ لیکن سب خاموش بیٹھے رہے، کسی نے کچھ کہنے کی جرأت نہ کی۔ آپ نے جاکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا ماجرا سنایا اور کہا: ’’اے میرے بھتیجے! خوش ہو جاؤ، میں نے عمرو بن ہشام (ابوجہل) سے تمہارا بدلہ لے لیا ہے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چچا جان! میں تو اس دن خوش ہوں گا، جس دن آپ خدائے واحد کی پرستش کرنے لگیں گے‘‘۔ دوسرے دن صبح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی حقانیت کچھ اس انداز سے پیش کی کہ آپ نے اقرار کرہی لیا اور داخل اسلام ہو گئے۔ اس کے بعد آپ برابر حضورﷺ کے ساتھ آپ کی مجالس میں شرکت کرنے لگے۔ یہ وہ وقت تھا، جب حضورﷺ دار ارقم کو اپنا تعلیمی مرکز بنا چکے تھے۔
تین دن بعد اور ایک واقعہ مکہ کی سرزمین پر رونما ہوا، وہ یہ کہ بنوعدی کے مرد آہن دار ارقم پر پہنچے۔ صحابہ کرام نے سوراخ سے دیکھا اور کہا: ’’عمر بن خطاب آیا ہے‘‘۔ حضرت حمزہ نے کہا: ’’خطاب کے بیٹے کو آنے دو، اگر حضورﷺ کا ادب ملحوظ رکھے گا تو عزت سے بٹھائیں گے، ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردیں گے‘‘۔ دروازہ کھلا، عمر اندر داخل ہوئے۔ حضورﷺ نے سوال کیا: ’’عمر! کس ارادے سے آئے ہو؟‘‘۔ کہا: ’’اسلام لانے کے لئے‘‘۔ مسلمانوں نے نعرۂ تکبیر اس زور سے لگایا کہ دشت و جبل گونج اٹھے۔ اب اسلام کو دو طاقتور بازو مل گئے اور پہلی مرتبہ خانہ کعبہ میں باجماعت نماز ادا کی گئی۔
مکہ میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مواخاتی بھائی حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ کو بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد خاندان ہاشمی کے ساتھ تین سال تک وادی بنوشعب میں محصوری کو برداشت کیا۔ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اور سعد بن خثیمہ کے ہاں قیام رہا۔ دوسری روایت کے مطابق کلثوم بن ھدم کے مکان میں رہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے شاہراہ کی کیفیت جاننے کے لئے تیس مجاہدین کے ساتھ روانہ کیا، جس کو تاریخ میں سریہ حمزہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سنہ ۲ھ میں حضورﷺ غزوہ ابوا کے لئے روانہ ہوئے تو علم حضرت حمزہ؄ کو عطا کیا گیا۔ اسی سال ماہ جمادی الآخر میں حضورﷺ ایک سو پچاس صحابہ کرام کے ساتھ ذوالعشریٰ کے مقام پر پہنچے، اس موقع پر بھی علم برداری کے فرائض آپ ہی نے انجام دیئے۔
۱۷؍ رمضان سنہ ۲ھ کو حق و باطل کا پہلا معرکہ عظیم برپا ہوا، جس میں سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ سے آپ کا مقابلہ ہوا۔ آپ کے مقابلہ کا انداز یہ تھا کہ جب دونوں ہاتھوں میں تلواریں لے کر نکلتے تو بڑے بڑے سورماؤں کے دل دہل جاتے۔ مقابلے میں عتبہ بن ربیعہ پر ایک ایسا وار کیا کہ جسم کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ سب سے پہلے اس جنگ میں ایک شخص جس کا نام اسود بن عبد الاسد تھا، جو مسلمانوں کے حوض سے پانی پینا چاہتا تھا، لیکن حضرت حمزہ نے حملہ کرکے اس کو ختم کردیا۔ حضرت حمزہ نے اسود بن عامر کو گرفتار کرلیا تھا، جس کو طلحہ بن ابی طلحہ نے دو ہزار دینار دے کر آزاد کروالیا۔ بنو قینقاع کے محاصرہ میں بھی علم آپ ہی کو عطا کیا گیا تھا۔
۷؍ شوال سنہ ۳ھ کو تین ہزار کا لشکر لے کر بدر کا انتقام لینے پھر قریش نے مدینہ پر چڑھائی کی۔ اس جنگ میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عثمان بن طلحہ کو ختم کیا، جو طلحہ بن ابی طلحہ کا بھائی تھا۔ اس جنگ میں جب آپ کے مقابل سباع غثانی آیا تو للکارکر اسے ختم کردیا۔ جس وقت آپ آگے بڑھ رہے تھے، جبیر بن مطعم کا ایک غلام وحشی بن حرب نے چھپ کر آپ پر برچھی پھینکی، جو آپ کے ناف کے نیچے لگی۔ لڑکھڑاکر گرپڑے، پھر آپ کا مثلہ کیا گیا، یعنی ناک کان کاٹے گئے۔ آپ کی شہادت کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آب دیدہ ہو گئے اور فرمایا: ’’تم اقربا کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے‘‘۔