محمد شفاعت احمد سلیمؔ
حضرت سید شاہ یوسف محمد محمد الحسینی المعروف حضرت سید شاہ راجو محمد محمد الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت ۱۰۰۲ھ میں بمقام بیجاپور (کرناٹک) اپنے وقت کے جید عالم دین اور صوفی بزرگ حضرت سید شاہ سفیر اللہ حسینی علیہ الرحمہ کے گھرہوئی۔ حضرت سید شاہ راجو حسینی قدس سرہ‘کا سلسلۂ نسب حضرت سید شاہ اکبر حسینی قدس سرہ‘کے ذریعہ آٹھویں پشت میںحضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز علیہ الرحمہ سے جاملتا ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والدِ بزرگوار سے حاصل فرمائی اور بعد ازاں تکمیل اپنے چچا محترم حضرت سید شاہ اکبر حسینی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ جب سید شاہ راجو حسینی رحمۃ اللہ علیہ نے علم و عرفان‘ عبادات و ریاضات‘ زہد و تقویٰ اور علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل فرمائی تو حضرت سید شاہ اکبر حسینی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سید شاہ یوسف محمد محمد الحسینیؒ المعروف شاہ راجو حسینی رحمۃ اللہ علیہ کو بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت سید شاہ راجو حسینی رحمۃ اللہ علیہ کا عقد مبارک دکن کے ممتاز صوفی بزرگ حضرت سید شاہ اولیاء سلطان الفقراء قادری (نبیرہ حضرت سید شاہ جلال الدین جمال البحر معشوق ربانی علیہ الرحمہ) کی صاحبزادی سے ہوا۔ آپ کو تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھیں۔
حضرت سید شاہ راجو حسینی رحمۃ اللہ علیہ ایک جید عالم و صوفی اور ولی کامل تھے۔ایک روز ایک شخص نے حضرت سید شاہ راجو حسینی علیہ الرحمہ کی خدمت میں ایک انار پیش کیا جسے قبول فرماکر آپؒ نے اسکے دانے حاضرین میں تقسیم فرمادیئے اور ان میں چند دانے ابوالحسن کو بھی عنایت فرمادیئے ۔ حضرتؒ نے فرمایا ’’گن تو کتنے دانے ہیں کہ وہ جتنے دانے ہونگے اتنے ہی برس تک تو حیدرآباد دکن کی سلطنت پر حکمراں رہے گا‘‘۔ ’’یہ وہی ابوالحسن تھا جو سلطان عبداللہ قطب شاہ کا داماد ہی نہیں بلکہ اس کے بعد سلطان ابوالحسن تاناشاہ کے نام سے ۱۰۸۳ھ میں قطب شاہی تخت پر بیٹھا‘‘۔
حضرت سید شاہ راجو محمد محمد الحسینی ؒ علوم دینی اور دنیوی پر کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ درس و تدریس کا سلسلہ پابندی سے خانقاہ میں ہوا کرتا تھا جس سے ہزارہا بندگان خدا مستفید ہوکر صبر و توکل‘ قناعت و ریاضت اور اصلاح باطن پر گامزن ہوتے تھے۔ حضرت کے ارشادات‘ ملفوظات اور خطبات مواعظ اور نصائح اور عارفانہ کلام کو جو فارسی اور دکھنی زبان میں ہے ان کو حضرت کے مریدین اور معتقدین نے بڑی عقیدت کے ساتھ جمع کیا ہے۔ حضرت سید شاہ راجو حسینی سرکارؒ شاعری کا ستھرا مذاق رکھتے اورؒ راجوؔ تخلص فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے عربی، فارسی اور دکھنی زبانوں میں شاعری فرمائی، مفید اور کارآمد کتابیں تصنیف کیں جو نظم و نثر دونوں پر مشتمل ہیں۔
بالآخر وہ وقت بھی آپہنچا جو ہر ایک کے لئے مقرر ہے یعنی ۱۵ ؍ صفر المظفر کو آپ کی روح پاک خاکدان عالم سے اپنے مقام کی جانب پرواز کرگئی اور خانقاہ میں جہاں کم و بیش ۵۰ سال تک رشد و ہدایت کے سوتے بہا کرتے تھے حضرت کی تدفین عمل میں آئی ۔ سلطان ابوالحسن تانا شاہ نے فرط عقیدت کی بنا پر حضرت معز کی حیات میں ایک عالیشان گنبد مبارک کی تعمیر شروع کردی تھی جس کی تکمیل دور عالمگیری میں ہوئی ۔ حیدرآباد دکن میں حضرت سید شاہ راجو محمد محمد الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کا گنبد فنِ تعمیر اور طرزتعمیر کے اعتبار سے منفرد نوعیت کا ہے۔ یہ خوبصورت گنبد آج بھی زیارت گاہ خلائق اور آماجگاہ انوار خالق ہے۔
مولانا سید شاہ ندیم اللہ حسینی کی زیرنگرانی حضرت سید شاہ راجو محمد محمد الحسینی ؒکے (۳۴۶) ویں عرس شریف تقاریب ۱۳‘ ۱۴‘ ۱۵‘ ۱۶؍صفر المظفر کو عظیم الشان پیمانے پر منعقد ہونگی۔ جن میں معتقدین و مریدین‘ ریاست و بیرون ریاست سے بلا مذہب و ملت ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرکے فیض حاصل کرتے ہیں، حضرت کا فیضان آج بھی جاری و ساری ہے۔
(ماخذ: تاریخ گلزار آصفیہ، حدیقۂ رحمانی، تذکرئہ اولیائے دکن، مشکوٰۃ النبوت)