سید ابراہیم علی احسن
٭ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ایران کے صوبہ سجستان میں واقع مقام سنجر میں ۱۴؍ رجب المرجب ۵۳۶ھ۔ ۱۱۴۱ء بروز دوشنبہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ بواسطہ والد بزرگوار حسینی اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسنی سادات سے ہیں۔ سادات گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کی حیثیت سے آپ پر سعادت کے آثار نمایاں تھے۔
٭ خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک ابھی پندرہ سال یا اس سے بھی کم تھی کہ آپ کے والد بزرگوار کا وصال ہو گیا۔ دو سال بعد والدہ ماجدہ کا بھی وصال ہو گیا۔ ترکہ میں ایک باغ تھا۔ آپ عبادت و اذکار میں مشغول رہتے ہوئے باغبانی کیا کرتے۔ ٭ خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر ارادت مندوں میں شامل ہو گئے۔ بیس سال تک پیر و مرشد کی خدمت کی۔ سفر و حضر، خلوت و جلوت، ہر وقت حضرت شیخ کی صحبت میں رہتے۔ آپ پر شیخ کی خصوصی توجہ رہتی۔ باطنی کمال و روحانی مرتبہ ایسا حاصل کیا کہ خود پیر و مرشد کو آپ پر ناز تھا۔ ٭ حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ساری زندگی خدمت خلق کے جذبہ کے ساتھ گزاری۔
آپ نے انسانی اقدار کا کس درجہ پاس و لحاظ رکھا، مخلوق خدا کے ساتھ آپ نے کس طرح الفت و محبت کا برتاؤ کیا، آپ کے ان ملفوظات اور تعلیمات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ٭ خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ’’اللہ تعالی کے پاس سب سے زیادہ محبوب یہ صفات ہیں (۱) غمگین افراد کی فریاد سننا (۲) مسکینوں کی حاجت پوری کرنا اور (۳) بھوکوں کو کھانا کھلانا‘‘۔ ٭ خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ’’جس میں تین خصلتیں ہوں، سمجھو کہ وہ اللہ تعالی سے محبت رکھتا ہے (۱) دریا کی طرح سخاوت (۲) سورج کے جیسی شفقت اور (۳) زمین کی طرح انکسار و تواضع‘‘۔ ٭ حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے وقت آپ کی جبین اقدس {پیشانی} پر یہ نورانی تحریر جگمگا رہی تھی ’’حبیب اﷲ مات فی حب اﷲ‘‘ یعنی ’’یہ اللہ کے محبوب ہیں، جو محبت الہی میں وصال کرگئے‘‘۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی ذات سے سبھی فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں۔ ٭ خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا وصال مبارک ۶؍ رجب المرجب ۶۳۳ھ۔ ۱۲۳۶ء بروز دوشنبہ ہوا۔