حسن اخلاق کا کرشمہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’قیامت کے دن نامۂ اعمال میں اچھے اخلاق کافی وزنی ہوں گے‘‘۔ نماز، روزہ اور زکوۃ وغیرہ یہ سب دین کا ایک حصہ ہیں۔ چنانچہ ایک عورت کے بارے میں روایت ہے کہ وہ بہت زیادہ عبادت کرتی تھی، لیکن لوگوںکے ساتھ اس کا معاملہ اچھا نہیں تھا، جس کی وجہ سے لوگ اس سے ناراض رہتے، جب کہ دوسری عورت ایسی تھی، جو عبادتیں تو محدود کرتی تھی، لیکن لوگ اس سے خوش تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے اخلاق اچھے ہیں اور جس سے لوگ خوش ہیں، وہ جنتی ہے اور جس کے تعلقات لوگوں سے خراب ہیں، وہ دوزخی ہے‘‘۔ اس روایت سے پتہ چلا کہ عبادات کے ساتھ حسن اخلاق کا ہونا بھی ضروری ہے۔
دین کے ابتدائی دَور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابۂ کرام نے پوچھا کہ ’’اسلام کیا ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’نماز، روزہ، زکوۃ اور حج‘‘ یعنی اس وقت لوگوں کو عبادات کے لئے اُبھارنا ضروری تھا، کیونکہ یہ چیزیں دین کی بنیاد ہیں۔ پھر جب کچھ عرصہ گزرگیا تو صحابۂ کرام نے یہی سوال آپﷺ سے پھر کیا کہ ’’دین کیا ہے؟‘‘۔ اس وقت آپﷺ نے فرمایا: ’’میٹھا بول بولو، مسکین کو کھانا کھلاؤ، صبر کرو، کسی کو دھوکہ نہ دو اور جھوٹ نہ بولو‘‘ یعنی اب لوگوں کو اخلاق پر اُبھارنا تھا، اس طرح آپﷺ نے پہلے عبادات کو دین فرمایا اور بعد میں اخلاق کو دین بتایا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ عبادات اور اچھے اخلاق دونوں مل کر دین کو مکمل کرتے ہیں۔ اس کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج دین کی بنیاد ہیں اور حسن اخلاق دین کی چھت اور دیواریں ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’دیانت دار تاجر کا حشر قیامت کے دن شہداء اور صدیقین کے ساتھ ہوگا‘‘۔ لہذا جب یمن کے تاجر ملیشیاء اور انڈونیشیا وغیرہ تجارت کی غرض سے پہنچے تو اُن کے کردار نے ان ممالک کو مسلمان بنادیا۔ وہاں کے لوگوں نے دیکھا کہ ’’یہ مسلمان میٹھا بول بولتے ہیں، ناپ تول میں کمی نہیں کرتے اور روپئے پیسے کے لالچی نہیں ہیں‘‘ تو ان کے کردار، حسن اخلاق اور للہیت کو دیکھ کر سب کے سب اسلام کے دامن سے وابستہ ہوکر اللہ والے ہو گئے۔