چار دہوں سے خدمات انجام دینے کااعزاز
مکہ معظمہ ۔ 26 مئی ۔(سیاست ڈاٹ کام) حج و عمرہ کے لئے حرم شریف پہونچنے والے اقطاع عالم کے لاکھوں مسلمانوں کو ہر فرض نماز کے لئے خوش الحان اذاں سنائی دیتی ہے ۔ فجر کے پُرسکون اور فرحت بخش ماحول میں جب حرم شریف سے اذاں کیآواز گونجتی ہے تو سارا ماحول معطر ہوجاتا ہے۔ روح کو تسکین اور جسم میں تحریک پیدا کرنے والی مکہ معظمہ میں اذاں کا ایک خاص لحن ہر معتمر کو کعبۃ اللہ کی جانب کھینچ لاتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں منفرد لحن کے ساتھ نماز کے لئے صدا لگانے والے موذن علی احمد علی ملا ہیں جو گزشتہ چار دہوں سے یہ خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ان کا خاندان نسلاً بعد نسلٍ اس عظیم سعادت کا امین چلا آ رہا ہے اور خاندان کے ایک مؤذن کے انتقال یا سبکدوشی کی صورت میں ا س کے دوسرے قریبی عزیز کو یہ ذمے داری منتقل ہوجاتی ہے۔مؤذن علی کا عرفی نام بلال الحرم ہے اور یہ عرفیت انھیں اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے مؤذن حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے نام پر ملی تھی۔ وہ 1945ء میں مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے مؤذنین کے خاندان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تیس سال کی عمر میں 1975ء میں اپنے چچا زاد بھائی شیخ عبدالملک الملا کے انتقال کے بعد مسجد الحرام کے مؤذن مقرر ہوئے تھے۔ان سے پہلے ان کے دادا شیخ علی، والد صدیق، ان کے چچا اور ان کے دونوں بیٹے بھی مؤذن کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے تھے۔ علی احمد الملا نے بتایا کہ ’’مجھے اپنے والد گرامی کی زبان سے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوش خبری اس وقت ملی تھی ،جب انھوں نے یہ اطلاع دی تھی کہ میں مسجد الحرام کا مؤذن بن گیا ہوں۔ اس کے بعد بہت سے دوستوں نے بھی میری حوصلہ افزائی کی تھی‘‘۔ انھوں نے 1979ء میں مسجد الحرام کے محاصرے کے واقعے کی مختصر تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ جہیمان العتیبی اور اس کے ساتھیوں نے 23 روز تک مسجد الحرام کا محاصرہ کیے رکھا تھا اور اس دوران میں پنجہ وقت نمازوں کا سلسلہ موقوف ہوگیا تھا۔ العتیبی نے کعبہ میں خود کو امام مہدی کہلوانے والے ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔انھوں نے بتایا کہ جب اس محاصرے کا خاتمہ ہوا تو انھوں نے سب سے پہلے نماز مغرب کی شاہ خالد بن عبدالعزیز مرحوم کی مسجد الحرام میں موجودگی میں اذان دی تھی اور 23 روز کے بعد مسجد الحرام میں پہلی مرتبہ نماز مغرب باجماعت ادا کی گئی تھی۔