از: شاہ محمد فصیح الدین نظامی
دنیا میں روزانہ ہزاروں کتابیں لکھی جاتی اور شائع بھی ہوتی۔ جن کا تعلق ادبیات، مذہبیات، اخلاقیات، طبعیات، سماجیات، نفسیات، خمریات، اسلامیات، اقبالیات اور غالبیات سے ہوتا ہے۔ ان کتابوں کے اوراق پر انسانی افکار و خیالات کا تجربات کا نقش مرتسم ہوتا ہے۔
روشنی راستہ بتاتی ہے اور راستہ بناتی بھی ہے۔ قرآن کا بھی بعینہ یہی کام ہے کہ وہ صرف راستہ ہی نہیں بلکہ صحیح راستہ بتاتا اور راستہ بناتا بھی ہے۔ اسی قرآن کی روشنی ہندوستان کی سرزمین پر عہد رسالت سے ہی پڑنے لگی تھی۔ جس میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔ قرآنی حلقے قائم ہوئے۔ مدارس کی بنیادیں رکھی گئیں۔ پاکانِ امت نے اپنی اپنی قیامگاہوں، خانقاہوں اور دیوان خانوں میں اس قرآن کو مرکز درس و تدریس بنایا۔ اس کے معارف اور حقائق سے اپنے شاگردوں کو واقف کروایا۔ یہی لوگ قرآن کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے معنی، اس کی تفسیر اور اس کی تشریح کرنے والے مفسر کہلائے۔ ہندوستان کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ یہاں بے شمار مفسر اور قرآن مبین کے ہزارہا مترجمین ہوئے۔ انہیں میں مشہور و معروف دانائے راز ، عارف وقت، فقیہہ عصر حضرت علی مخدوم مہائمی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ جنہوں نے بتائید ایزدی قرآن مجید کی ایک ایسی انوکھی اور ظاہری و باطنی علوم سے بھرپور تفسیر لکھی جو ’’تبصیر الرحمن تیسیر المنان‘‘ کے نام نامی و اسم گرامی سے شہرۂ آفاق ہوئی۔ صدیوں بعد بھی اہل علم اس تفسیر کی افادیت معنویت اور مقصدیت کا لوہا مان رہے ہیں۔ صاحب تفسیر حضرت علی مخدوم مہائمی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی اس تفسیری کتاب میں قرآن کے ظاہری معنوں کے ساتھ ساتھ باطنی معنوں سے بھی پردہ اٹھاکر اپنے قاری کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح اس تفسیر کا تعلق بصارت سے بھی ہے اور بصیرت سے بھی۔ یہی اس تفسیر کی خصوصیت بھی ہے اور اس کا امتیاز بھی جو اس کو دوسری تفسیروں سے ممتاز بناتا ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں لکھی گئی اس عربی تفسیر کا اردو زبان میں ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن ملک رنگون کے ممتاز عالم دین، صوفی باصفا، ماہر السنہ، حضرت علامہ حبیب البشر خیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عظیم الشان تفسیر کا ترجمہ ’’تفسیر رحمانی‘‘ کے نام سے کرتے ہوئے اسی نکتہ کو پیش نظر رکھا۔ تفسیر رحمانی کی پہلی جلد سورہ فاتحہ یعنی قرآن کی سورہ نمبر ایک پر مشتمل ہے۔ جس میں تعوذ و تسمیہ کے ساتھ ساتھ سورہ فاتحہ کی سات آیتوں کی تفسیر زیب قرطاس کی گئی ہے۔ تفسیر رحمانی کے ترجمہ کی ابتدائی ۷۴صفحات پر حضرت مخدوم علی مہائمی رحمۃ اللہ علیہ کے احوالِ علمی و اشغال روحانی اور ادبی کارناموں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس سے قبل حمد، نعت اور انتساب کے تحت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ، سیدہ فاطمۃ الزہرا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہن کے مختصر حالات درج کئے گئے ہیں۔ بعد ازاں ناشر کا مقدمہ اور اظہار تشکر ہے۔اس تفسیر کے ابتدائی صفحات میں تبصیر الرحمن کے قلمی مخطوطہ کی فوٹو بھی شامل کردی گئی ہے۔ اس طرح جلد اول سورۂ فاتحہ کی تفسیر پر مشتمل اور ۲۹۶ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔تفسیر مہائمی کے اردو ترجمہ کو پڑھ کر قاری کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جاتی ہیںکہ یہ صرف ایک تفسیر ہی نہیں بلکہ کئی علوم و فنون کا بیش قیمت مخزن دکھائی دیتا ہے۔ جس کی قدر و قیمت ایک جوہری ہی اچھی طرح جان سکتا ہے۔ ترجمہ کی زبان سلیس ہونے کے علاوہ سہل بھی ہے۔ جس کے دوران مترجم نے اپنے ذوق شعر و سخن کا بلیغ اظہار فارسی، عربی اور اردو اشعار کے ذریعہ دیا ہے۔ مقدمہ کے تحت چند اہم امور کا بیان کہ عنوان سے جو باتیں مفسر نے تحریر کی ہیں ان کا ترجمہ بھی مترجم نے نہایت مناسب اور موزوں اردو الفاظ میں کیا ہے جس سے مترجم کی اردو، عربی دونوں زبانوں میں باہم دسترس کا بخوبی اندازہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ تفسیر رحمانی کی دوسری جلد قرآن کی دوسری سورۃ، سورہ بقرہ کی تفسیر بڑے حجم کے ۳۲۰ صفات پر پھیلی ہوئی ہے۔
تفسیر تبصیر الرحمن تیسیر المنان اپنے عہد کے ابن عربی کا ایسا علمی اور تحقیقی، تفسیری اور قرآنی شاہکار ہے جس کے حقیقت افروز انکشافات، دلائل و براہین پر صرف ہندوستانی مسلمان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر مسلمان بجا طور پر فخر کرسکتا ہے۔ اسلاف کا یہ کلاسیکی ورثہ نئے قالب میں چشمِ بصیرت کا سرمہ ہے۔ اس کو قدر کے ہاتھوں سے لینا اور دانش گاہوں ، خانقاہوں ، کتب خانوں ، دیوان خانوں کے علاوہ اپنوں اور غیروں تک پہنچانا وقت کا تقاضہ ہے تاکہکتاب الٰہی کے وسیلہ سے ہمارا رشتہ بارگاہ الٰہی سے مضبوط اور مستحکم ہوجائے اور معرفت رسول دوجہاں ، رحمت کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی بندگی اور حقیقی اطاعت کا لطف حاصل ہو۔ عمدہ کاغذ ، موتیوں جیسی کتابت، اعلیٰ جلد بندی ، عالمی سطح کی طباعت، ایم آر پبلی کیشن ، نئی دہلی جیسے معتبر ادارہ کا ڈیلکس ایڈیشن ۷۸۶ہندوستانی سکہ میں کوئی مہنگا سودا نہیں۔ کیونکہ مال اچھا ہو تو قیمت نہیں دیکھی جاتی۔