حدیث

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام سے) پوچھا کہ کیا تم نے کسی ایسے شہر کے بارے میں سنا ہے، جس کے ایک طرف سمندر ہے اور ایک طرف جنگل؟۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ’’ہاں یارسول اللہ! (ہم نے اس شہر کا ذکر سنا ہے)۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی، جب تک کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ستر ہزار آدمی اس شہر کے لوگوں سے جنگ نہ کرلیں گے!۔ چنانچہ حضرت اسحاق کی اولاد میں سے وہ لوگ (جب جنگ کے ارادے سے) اس شہر میں آئیں گے تو (اس شہر کے نواحی علاقہ میں) پڑاؤ ڈالیں گے (اور پورے شہر کا محاصرہ کرلیں گے) لیکن وہ لوگ شہر والوں سے ہتھیاروں کے ذریعہ جنگ نہیں کریں گے اور نہ ان کی طرف تیر پھینکیں گے، بلکہ لاالہ الااللہ واللہ اکبر کا نعرہ بند کریں گے اور شہر کے دو طرف کی دیواروں میں سے ایک طرف کی دیوار گرپڑے گی‘‘۔ (مسلم)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد میں جس شہر کا ذکر فرمایا، اس کے بارے میں ایک شارح کا کہنا ہے کہ وہ شہر روم میں واقع ہے اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر سے ’’قسطنطنیہ‘‘ مراد ہے، جس کا مسلمانوں کے ذریعہ فتح ہونا قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ اسی طرح حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے مراد، جیسا کہ مظہر نے وضاحت کی ہے، شام کے لوگ ہیں، جن کا سلسلہ نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے صاحبزادے حضرت اسحاق سے شروع ہوتا ہے اور وہ لوگ مسلمان ہوں گے، یا ان کے علاوہ دوسرے مسلمان بھی شامل ہوں گے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ حضرت اسحاق کی اولاد کا ذکر اختصار کے پیش نظر اور دوسرے لوگوں پر ان کو فوقیت دینے کی بنا پر ہے۔