حضرت مہاجر بن حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں عقلمند و دانشور کی ہر بات کو قبول نہیں کرتا (یعنی میرا دستور یہ نہیں ہے کہ عالم و فاضل اور عقلمند و دانا شخص جو بات بھی کہے، اس کو قبول کرلوں) بلکہ میں اس کے قصد و ارادہ اور محبت و نیت کو قبول کرتا ہوں (یعنی یہ دیکھتا ہوں کہ اس نے جو بات کہی ہے، وہ کس قصد و ارادہ اور کس نیت کے ساتھ کہی ہے) پس اگر اس کی نیت و محبت میری طاعت و فرماں برداری کے تئیں ہوتی ہے تو میں اس کی خاموشی کو (بھی) اپنی حمد و ثناء اور اس کے حلم و وقار کے مرادف قرار دیتا ہوں، اگرچہ وہ کوئی بات نہ کہے‘‘۔ (دارمی)
مطلب یہ ہے کہ خدا کے نزدیک محض گفتار کے غازی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، وہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ بات کہنے والا دانش و حکمت سے قطع نظر اپنی نیت میں کتنا مخلص ہے۔ اگر وہ خدا کی اطاعت و فرماں برداری کی نیت اور اپنے دل میں خدا کے احکام کی محبت و عظمت رکھتا ہے تو اس کی خاموشی بھی علم و وقار کا مایۂ افتخار اور خدا کے نزدیک مستحسن و محمود قرار پاتی ہے کہ اگر وہ زبان سے کچھ نہ کہے تو بھی وہ ایسا ہی سمجھا جاتا ہے، جیسا کہ خدا کی حمد و ثناء میں رطب اللسان ہے۔ اور اگر اس کی نیت خدا کی اطاعت و فرماں برداری کی نہ ہو اور اس کے دل میں احکام خداوندی کی عظمت و محبت کا فقدان ہو تو اس کی ہر بات لغو اور ناقابل اعتناء قرار پاتی ہے، اگرچہ اس کے الفاظ و معنی علم و حکمت سے کتنے ہی پُر کیوں نہ ہوں، کیونکہ اس صورت میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھا جاسکتا کہ وہ ریاکاری میں مبتلا ہے اور جو بھی بات کہہ رہا ہے، اس کا مقصد لوگوں کو دکھانا، سنانا اور اس کے ذریعہ شہرت و ناموری حاصل کرنا ہے!۔