حج ہاوز سے متصل عمارت کو لیز پر دینے کا فیصلہ متنازعہ

محکمہ اقلیتی بہبود سے اجازت لیے بغیر وقف بورڈ کا یکطرفہ اقدام ٹکراؤ کا موجب ہوگا
حیدرآباد ۔ 31۔ اکتوبر (سیاست نیوز) چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے اسمبلی میں کئے گئے اعلانات کی تلنگانہ وقف بورڈ کے پاس کیا اہمیت ہے؟ عام طور پر چیف منسٹر کی جانب سے اسمبلی میں دیا گیا کوئی بھی تیقن متعلقہ محکمہ کیلئے قابل عمل ہوتا ہے لیکن یہاں چیف منسٹر کے اعلان کے باوجود محکمہ اقلیتی بہبود اور وقف بورڈ حج ہاؤز سے متصل عمارت کے بارے میں یکطرفہ فیصلہ کرچکے ہیں۔ وقف بورڈ کی جانب سے حج ہاؤز سے متصل 7 منزلہ زیر تعمیر کامپلکس کو 30 سالہ لیز پر دینے کا فیصلہ تنازعہ کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ اس فیصلہ کے سلسلہ میں وقف بورڈ نے اپنے اختیارات کا استعمال کیا اور محکمہ اقلیتی بہبود سے اس کی اجازت حاصل نہیں کی۔ اب جبکہ وقف بورڈ لیز کے سلسلہ میں ٹنڈرس طلب کرنے کی تیاری کر رہا ہے ، یہ فیصلہ وقف بورڈ اور محکمہ اقلیتی بہبود کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ اسمبلی سیشن میں چیف منسٹر نے اعلان کیا تھا کہ اقلیتی بہبود کے تمام دفاتر زیر تعمیر کامپلکس میں منتقل کئے جائیں گے تاکہ اقلیتوں کو اپنے مسائل کی یکسوئی کے سلسلہ میں ایک سے دوسرے مقام جانے کی زحمت نہ ہو۔ تمام دفاتر ایک ہی عمارت میں ہونے سے عوام کو سہولت ہوگی۔ فی الوقت اقلیتی بہبود ڈائرکٹوریٹ ، اقلیتی اقامتی اسکول سوسائٹی اور حیدرآباد ڈی ایم ڈبلیو اور اگزیکیٹیو ڈائرکٹر اقلیتی فینانس کارپوریشن کے دفاتر شہر میں الگ الگ مقامات پر واقع ہیں۔ میناریٹیز اسٹڈی سرکل اور سی ای ڈی ایم کا آفس بھی دیگر علاقوں سے کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں چیف منسٹر نے اعلان کیا تھا کہ اقلیتوں سے متعلق تمام دفاتر کو 7 منز لہ زیر تعمیر کامپلکس میں منتقل کردیا جائے گا ۔ اور موجودہ حج ہاؤز کی عمارت عازمین حج کی روانگی کیلئے استعمال کی جائے گی۔ چیف منسٹر کے اس اعلان پر عمل آوری میں محکمہ اقلیتی بہبو د سے تاخیر کے نتیجہ میں وقف بورڈ نے اس عمارت کو 30 سالہ لیز پر دینے کا فیصلہ کرلیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال حکومت نے جن 11 جائیدادوں کو لیز پر دینے کی اجازت دی ، ان میں زیر تعمیر کامپلکس شامل ہیں۔ چیف منسٹر کے اسمبلی میں اعلان کے بعد محکمہ اقلیتی بہبود نے احکامات میں کوئی ترمیم نہیں کی جس کے نتیجہ میں یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چیف منسٹر کا اعلان اور تیقن محض وقتی اور قابل عمل نہیں تھا۔ یا پھر وہ اپنے اس وعدہ میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ محکمہ اقلیتی بہبود کی ذمہ داری تھی کہ وہ وقف بورڈ کو چیف منسٹر کے اعلان سے واقف کرتا۔ برخلاف اس کے بورڈ میں قرارداد کی منظوری کے باوجود محکمہ اقلیتی بہبود پر بے حسی چھائی ہوئی ہے۔ وقف بورڈ نے عمارت کے کنٹراکٹر سے جاری تنازعہ کی یکسوئی کرلی۔ کنٹراکٹر نے 3 کر وڑ سے زائد کی رقم کا عدالت میں دعویٰ پیش کیا تھا۔ عدالت کے باہر اس معاملہ کی یکسوئی ہوگئی اور ایک کروڑ 33 لاکھ روپئے کنٹراکٹر کو ادا کئے گئے۔ کنٹراکٹر نے عدالت میں مقدمہ سے دستبرداری اختیار کرلی ۔ وقف بورڈ بہت جلد عمارت کو لیز پر دینے کیلئے ٹنڈر اعلامیہ جاری کردے گا جس کے مطابق ہمہ منزلہ عمارت صرفیک ہی ادارہ کے حوالے کی جائے گا ۔ ٹنڈر میں شمولیت کیلئے 50 لاکھ روپئے ڈپازٹ کرنے ہوں گے اور ٹنڈر کی منظوری پر ایک کروڑ روپئے ناقابل واپسی ادا کرنے ہوں گے۔ ٹنڈر کی مدت 30 سال رہے گی۔ اس عمارت کے لئے کسی آئی ٹی کمپنی یا ہوٹل کو ترجیح دی جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس معاملہ میں بھی بورڈ کے بعض ارکان دلچسپی دکھائی دے رہے ہیں اور اپنی پسند کے اداروں کو ٹنڈر الاٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر ٹنڈر میں زائد کمپنیاں دلچسپی نہ لیں تو ہوسکتا ہے کہ نامنیشن کی بنیاد پر الاٹ کرنے کی کوشش کی جائے ۔